نسرین لئیق
کشمیر پاکستان کا جزو ہے۔ کشمیر آج سے نہیں ازل سے ہمارا حصہ ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔ کشمیر کی 90 فی صد آبادی مسلمان ہے، مسلمان چودھویں صدی کے شروع سے وہاں رہتے ہیں، حکمراں بھی وہاں کے مسلمان ہی رہے، یہاں تک کہ 1587 میں یہ اکبر کی سلطنت کا ایک جزو بن گیا۔ اور احمد شاہ ابدالی تک مسلمانوں کے قبضے میں ر ہا۔ 1819 میں دیوان محکم کی عیاریوں اور افغانوں کی باہمی لڑائی کی وجہ سے کشمیر رنجیت سنگھ کے پاس چلا گیا۔ 1820 میں رنجیت سندھ نے جموں کا علاقہ ایک ڈوگرہ سردار گلاب سنگھ کو بخش دیا مگر مکمل اقتدار اسی وقت حاصل ہوا جب سکھوں اور انگریزوں کی سازش کے باعث انگریزوں نے معاہدہ امرتسر کے ذریعے اس خوبصورت وادی کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں صرف 75 لاکھ میں فروخت کردیا۔ اس کے بعد 26 اکتوبر 1947ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں اتنا ہی سیاہ اور غمناک دن ہے جتنا معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 کو ایک سازش کے تحت 40 لاکھ کشمیری مسلمانوں کا سودا کیا جانے لگا تو مسلم کانفرنس نے غلامی کی اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کو بنے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ بھارت نے اپنی فوجیں زبردستی کشمیر میں اُتارنا شروع کردیں، بھارت اسٹین گنوں، توپوں اور بمباری کی طاقت سے چالیس لاکھ انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنانا چاہتا تھا مگر پاکستان نے اُس کی یہ کوشش ناکام بنادی۔
70 سال سے پاکستان مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کررہا ہے، مسئلہ کشمیر کو ہندوستان ہی اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا کہ اس کو حل کروایا جائے اور کشمیری جو بھی چاہتے ہیں ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ رہنا ان کی مرضی کے مطابق حق خودارادیت انہیں دیا جائے تا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں مگر اب اس بات سے مکر کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ آزادی کے وقت ریاستوں سے یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ریاستیں اپنے جغرافیائی اور اپنے عوام کی رائے کا خیال رکھتے ہوئے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کرسکتی ہیں۔
تقسیم کے وقت کشمیریوں کی اکثریت نے پاکستان میں شامل ہونے کو کہا جو بھارت کو سخت ناگوار گزرا اور اُس نے اپنی فوجیں کشمیر میں اُتاردیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، پاکستان نے ہر لحاظ سے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے لیکن بھارت ڈھٹائی سے اس پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور اس کو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ بھارت کی 8 لاکھ فوج نے وادی میں ظلم و ستم کا بازار گرام کیا ہوا ہے، لاکھوں کشمیری شہید، خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کشمیری مردوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہ بنایا جاتا ہو، لاکھوں کشمیری مسلمان بھارتی جیلوں میں آج بھی نظر بند ہیں، کشمیری جیلوں میں مزید قیدی رکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔
مقبوضہ وادی میں حریت رہنما مجاہد برھان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور حصول حق خودارادیت کی تحریک میں ایک ولولہ اور نیا جذبہ پیدا کردیا ہے جس کو بھارت طاقت کے ذریعے دبا رہا ہے جس کی زد میں آکر لاتعداد مظاہرین کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں، ہزاروں شہادتیں ہوچکی ہیں اور اسپتالوں میں زخمیوں کو بھی ظلم و تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ ان سب مظالم کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی میں کوئی کمی نہیں آئی، وہ لوگ اپنے خون سے اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، بھارت اپنی عیاری، مکاری اور نام نہاد سیکولرازم کے پردے میں دنیا کو دھوکا دیتے ہوئے اس تحریک کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان پر اس کا الزام لگاتا ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور ظلم و ستم سے بعض نہ آیا تو آئندہ بھی برھان وانی پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنے خون سے آزادی کی شمع کو روشن کریں گے۔ عالمی ضمیر عیسائیوں کی وجہ سے مشرقی تیمور میں فوراً بیدار ہوگیا تھا اور مسئلہ فوراً حل ہوگیا تھا مگر محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے پر دنیا اور نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار خاموش رہ کر اپنا دہرا معیار دنیا کو دکھا رہے ہیں۔
پاکستان کو ہر سطح پر مسئلہ کشمیر کی گردان کرنا ہوگی چاہے وہ اقوام متحدہ ہو، او آئی سی، انسانی حقوق کے کمیشن ہو یا سفارت کاری کا میدان بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنائے رکھنا اور آزاد کشمیر کے ایک بڑے لیڈر کا برطانیہ میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی مشق کے نام پر رات بھر دوبازاری عورتوں کا مجرا دیکھنا جیسے اقوام کشمیریوں پر ظلم و ستم میں بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت میں نام نہاد سیاست دان مودی کی یاری میں اتنا نہ گریں کہ اٹھا ہی نہ جاسکے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اس کو بچانے کے لیے ہر سطح پر مربوط ٹھوس کوششیں کی جائیں۔