امریکا کا خطرناک رجحان

280

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جی سیون اجلاس میں عالمی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرکے کینیڈین وزیراعظم کو بد دیانت قرار دے دیا اور مشترکہ اعلامیے سے علیحدگی اختیار کرکے سنگاپور روانہ ہوگئے۔ امریکی صدر نے ایسا کیوں کیا۔ کیا امریکا کی یہ پالیسی ہے کہ جی سیون میں بھی اتفاق رائے نہ ہوسکے۔ بظاہر معاملہ روس کی معطل رکنیت بحال کرنے اور تجارتی ٹیرف کے معاملے پر اختلاف رائے کا تھا۔ لیکن در اصل یہ امریکی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔ امریکا دنیا بھر میں انتشار اور بد امنی پھیلارہاہے، تازہ واقعہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ بات صرف جی سیون کی نہیں ہے جو ملک اور اس کے حکمران دنیا کے 14 ممالک میں براہ راست جنگ اور بمباری میں مصروف ہوں ان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔ ابھی دو روز قبل افغان طالبان نے عید کے حوالے سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن امریکا نے جنگ بندی مسترد کرکے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ یعنی امریکا کے حکمران کسی قیمت پر امن نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ ایجنڈا بھی صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں ہے بلکہ اس کو لانے والوں کا ایجنڈا ہے کہ دنیا میں کہیں امن و سکون نہیں ہو۔ ایرانی سفیر نے امریکی پالیسیوں کے بارے میں کہاہے کہ امریکا اپنی متنازعہ پالیسیاں دوسرے ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے اس کے نتائج خطرناک ہوں گے لیکن فی الحال تو امریکا کی پوزیشن ایسی ہے کہ اسے کوئی فوری خطرہ نہیں اس لیے خطرناک نتائج کی اسے کیوں فکر ہوگی۔ دنیا بھر میں سمجھ دار ممالک اور لیڈر امن کی خاطر بہت سی قربانیاں دیتے ہیں لیکن وہ ہر قیمت پر امن حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے فرد ہیں جو ہر قیمت پر بد امنی اور انتشار چاہتے ہیں۔ انہوں نے کینیڈین وزیراعظم کے بارے میں تبصرہ کیا ہے اور اس کے بعد ٹوئٹر پر مہم شروع کی ہے اس کے نتائج خود ان کے خلاف ہوں گے امریکی عوام میں بھی کینیڈین وزیراعظم ٹروڈو کے لیے احترام اور عزت موجود ہے ایسے تبصرے سے یقیناًٹرمپ کو بھی دھچکا لگے گا لیکن امریکی قوم کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کا رہنما کیسا ہے جو پورے کینیڈین عوام کے سامنے امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچارہاہے۔ یہ امریکی عوام کی ذمے داری ہے کہ اپنے صدر کو لگام دیں۔ ورنہ انہیں پھر کوئی فیڈل کاستر گلے پڑجائے گا۔