پانی کا بحران۔سب ملوث ہیں

288

پاکستان میں آج کل پھر کالاباغ ڈیم کا شور مچا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے بھی نوٹس لے لیا پھر وضاحت بھی کی کہ میں نے ڈیمز کی بات کی تھی کالاباغ کی نہیں۔ مزید وضاحت آئی ہے کہ آبی ذخائر کی تعمیر میں عدالت کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پانی کی قلت کے خاتمے کا عزم کرلیا ہے لیکن پاکستان میں پانی کا مسئلہ حل کرنا کوئی کھیل نہیں ہے کیونکہ مفاد پرستوں نے اسے کھیل بنالیا ہے۔ بعض لوگ اسے محض سیاست دانوں کی نا اہلی پر محمول کرتے ہیں لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اس کھیل میں جرنیل، سیاست دان، زمین دار، وڈیرے، خان، بیوروکریٹس سب ہی شامل ہیں۔ غفلت کا یہ عالم ہے کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنالیا تو پاکستان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا یہ ڈیم ایک دو ماہ میں تو نہیں بنا ہوگا برسوں سے اس پر کام ہورہاتھا اور بھارت کرے گا بھی یہی کام۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا ہورہاہے؟ یہاں اب بھی سیاست ہورہی ہے۔ کالاباغ ڈیم کے مسئلے پر جتنے برس سیاست ہوئی ہے اتنے برس میں 8 کالاباغ ڈیم بن چکے ہوتے۔ اسے اتفاق رائے کے نام پر نہیں بننے دیا جاتا جب کہ پاکستان میں طاقتور لوگوں کو جو کام کرناہوتا ہے وہ کر ڈالتے ہیں، اتفاق رائے کی فکر نہیں ہوتی۔ بھارت کو ایک طرف رکھیں ذرا غور کریں کہ پاکستان میں کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بن سکا۔ صوبہ سرحد کے کچھ رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ صوبہ بنجر ہوجائے گا۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ کچھ علاقے متاثر ضرور ہوتے لیکن اس کا مداوا کیا جاسکتاتھا۔ اعتراض کرنے والوں نے اسے صوبے کا مسئلہ بنادیا حالانکہ وہ خالص سیاست کررہے تھے۔ سندھ میں وڈیرے یہی کہتے ہیں کہ ہمارا سندھ بنجر ہوجائے گا۔ سندھ میں اس حوالے سے جد وجہد کے ایک وکیل رسول بخش پلیجو گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ اس کے علاوہ بھی کئی رہنما کالاباغ ڈیم کے خلاف بیانات اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ان کا مسئلہ اپنی زمینوں کا تحفظ بھی ہے اور سیاست بھی۔ یہ بھی سندھ کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ پنجاب کو چونکہ کالاباغ ڈیم سے فائدہ ہونے کا امکان ہے اس لیے وہاں اس پر کوئی شور نہیں مچایا جاتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کی تقسیم محض پانی کی تقسیم نہیں ہے جس طرح دنیا میں تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے اسی طرح پاکستان کے پاس بھی پانی کے دیگر ذرائع ہیں لیکن یہاں بھی دوسرے ذرائع استعمال اور اختیار کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ کالاباغ ڈیم کے بجائے اگر اکھوڑی ڈیم پر کام کرتے تو یہ کالاباغ ڈیم سے بڑی گنجائش والا ڈیم ہوسکتا ہے اس کی گنجائش 7 ملین ایکڑ فٹ ہے جب کہ مجوزہ کالاباغ ڈیم کی گنجائش کم ہے ۔اکھوڑی پر تنازعات بھی نہیں ہیں لیکن ہمارے حکمران اس جانب سوچتے نہیں یا سوچنا نہیں چاہتے۔ جب بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنالیا تو ہم عالمی عدالت میں گئے۔ اب بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے کچھ دنوں میں کام بھی شروع ہوجائے گا اور پاکستان گوادر اور سی پیک پر اختلافات کا شکار رہے گا۔ یہ بات ہمارے تمام ہی حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ گوادر سی پورٹ اور سی پیک پاکستان کے لیے بہت اہم ہے بھارت کو چاہ بہار سمیت ہر جگہ کام کرنے کا حق ہے لیکن وہ کام سے زیادہ شرارت پر توجہ دیتا ہے اس لیے خدشات یہ ہیں کہ بھارت کوئی شرارت کرنے کے لیے چاہ بہار میں بیٹھا رہے گا اور ہمارے حکمران سوتے رہیں گے۔ اس جانب بھی پہلے توجہ کیوں نہیں دی گئی اور اب بھی کیوں نہیں جاگ جاتے۔ یہ دنیا معاشی مفادات کے پیچھے چل رہی ہے اگر ایران کے ساتھ بہتر انداز میں روابط رکھے جاتے تو چاہ بہار میں بھی پاکستانی سرگرمیاں ہورہی ہوتیں۔ یہ سارے کام منصوبہ بندی اور دور اندیشی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی اور دور اندیشی حکمرانوں کے مزاج میں نہیں ہے یا وہ ہر کام فوری اور مختصر فوائد کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔معاملہ پانی کا ضرور ہے لیکن قومی مفاد کے معاملات پر نہایت غلط انداز اختیار کرنا زیادہ غلط ہے۔ جنرل ضیا، جنرل پرویز مشرف دو ایسے جرنیل رہے ہیں جن کو مکمل اختیار بھی ملا اور وقت بھی بہت ملا لیکن انہوں نے کالاباغ ڈیم کیوں نہیں بنایا، اتفاق رائے کا نام تو ہرگز نہیں لے سکتے یہ لوگ۔ کیونکہ مارشل لا کبھی قومی اتفاق رائے سے نہیں لگایا جاتا صرف آرمی چیف اور چند جرنیلوں کے درمیان اتفاق رائے ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں یہ کام بار بار ہوا ہے بہت سے کام زبردستی کیے جاتے ہیں۔ شدید اختلافات ہوتے ہیں۔ ارسا کے فیصلے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں میں بھی اتفاق رائے نہیں ہوتا لیکن یہ فیصلے نافذ ہوجاتے ہیں۔ اسمبلیاں بھی بہت سے فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کرلیتی ہیں شدید اختلافات کے باوجود یہ فیصلے نافذ کردیے جاتے ہیں اور کہاجاتا ہے کہ یہ فیصلے قومی مفاد میں کیے گئے ہیں تو پھر کالاباغ ڈیم بھی قومی مفاد ہے، بنادو ایک مرتبہ۔ کون کیا کرلے گا۔ جب فوج کو پنوں عاقل چھاؤنی کی ضرورت پڑی اسے مستحکم کرنا تھا تو کیا کرلیا قوم پرستوں نے چھاؤنی بن کر رہی۔ لہٰذا یہ سارا ڈراما بند کیا جائے، عدالت بھی نوٹس ضرور لے۔ لیکن مسئلے کا حل تو یہ ہے سب کو ایک جگہ بٹھایا جائے اور فیصلہ ہونے تک کسی کو جانے نہیں دیا جائے عدالت اتنا کرلے۔ سینیٹ موجود ہے ہر صوبے کی نمائندگی ہے اس کے نمائندوں کو انتخابات کے فوراً بعد عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں جمع کیا جائے اور اتفاق رائے یا اختلاف رائے کے ساتھ پانی کے بحران کا حل تلاش کرنے کا پابند کیا جائے۔ سماعتوں اور مقدمات سے کچھ نہیں ہوتا۔