اور اب عدلیہ بھی میدان میں اتر آئی

309

سندھ طاس معاہدہ ہوا تو پاکستان کے لیے پانی کا ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی‘ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ ایوب خان کی حکومت میں بنا‘ آج تک یہ ڈیم نہیں بن سکا‘ پاکستان میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں کالاباغ کا علاقہ ایسی جگہ ہے جہاں دریا قدرتی طور پر ایک جھیل یا ڈیم کی شکل اختیار کرلیتا ہے اسی وجہ سے ڈیم کی تعمیر کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ نہ جانے وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر یہ منصوبہ ایوب خان مکمل نہ کرسکے‘ ان کے بعد یحیی خان آئے پھر بھٹو حکومت آئی لیکن منصوبہ نہیں بن سکا۔ ضیاء الحق نے اپنے دور میں ایک برطانوی فرم سے نئے سرے سے سروے کرایا تو اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ۱۹۲۹ میں آنے والے سیلاب کے باعث چارسدہ اور نوشہرہ ڈوب گئے تھے لہٰذا یہ بات سامنے آتے ہی علاقائی سیاسی جماعتیں بھڑک اٹھیں اور دھمکی دی کہ ڈیم بنا توبم سے اڑا دیا جائے گا۔
بس وہ دن اور آج کا دن‘ یہ منصوبہ ٹھپ ہو کررہ گیا جب کہ اس پر پرانے وقتوں میں ایک لاکھ ڈالر رقم خرچ کی جاچکی تھی‘ قدرتی جھیل بھی موجود تھی‘ جس کے باعث پانچ سال کی مدت میں یہ ڈیم تعمیر ہوجاتا۔ ڈیم بن جانے سے سندھ کو چالیس فی صد‘ پنجاب کو بائیس فی صد‘ کے پی کے کو بیس اور بلوچستان کو پندرہ فی صد اضافی پانی میسر آتا‘ لیکن ہم برسوں سے بارشوں کا پانی ضائع کیے جارہے ہیں ابھی حال ہی میں ایک رٹ پیٹیشن پر چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کی ہے اور کہا کہ خواہش ہے کہ اس پر قومی اتفاق رائے پیدا ہوجائے اپنی معاونت کے لیے انہوں نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو مقرر کیا ہے مگر اعتزاز صاحب بمشکل کوئی مدد کر پائیں گے کیوں کہ وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی کے ممبر ہیں جو کالا باغ ڈیم کی کھل کر مخالفت کرتی ہے، وفاق پاکستان میں شامل تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے کی اسمبلیاں کئی بار کالا باغ ڈیم کے خلاف آواز اٹھا چکی ہیں اس پس منظر میں چیف جسٹس کا کام مشکل سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے اور اگر وہ اپنی طرف سے کوئی آرڈر بھی جاری کر دیں اور تین صوبے اس پر عمل سے انکار کر دیں تو پھر کیا ہو گا ۔
پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن یہ سب کچھ صدا بصحرا ثابت ہوا ہے گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم مودی نے کشن گنگا کا افتتاح کیا تو پاکستان میں اس کے خلاف شور مچا ہے۔ کشن گنگا پر پاکستان اپنا کیس عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ہے کشن گنگا ڈیم کا فالتو پانی سری نگر کی وولر جھیل میں گرتا ہے، یہ پانی کہیں اور نہیں جا سکتا سوائے اس کے کہ دریائے جہلم کا حصہ بن جائے اور اسے پاکستان اپنی مرضی سے استعمال میں لا سکے ، لہٰذا کوہالہ ڈیم سے پاکستان کو ایک سو میگا واٹ فالتو بجلی پیدا کرنے کا موقع مل سکتا ہے پاکستان کو تمام ممکنہ آبی ذخائر تعمیر کرنے چاہییں صرف دو رابطہ نہروں کی تعمیر سے ہم دریائے راوی کو جسڑ کے مقام پر اور دریائے ستلج کو سلمانکی کے مقام پر زندہ کر سکتے ہیں، اگر یہ دونوں دریا خشک پڑے ہیں تو اس میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا حصہ تو ہے ہی مگر خود ہماری غفلت اور بے حسی کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن ظاہری طور پر اس کے حق میں ہے مگر اس نے اس کی تعمیر کے لیے تمام تر وعدوں کے باوجود کوئی کام نہیں کیا۔ ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد نوازشریف نے جو فاتحانہ تقریر کی تھی اس میں ایک اعلان یہ کیا کہ کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے گا۔ نواز شریف اپنی آج کی ہر تقریر میں ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر انہیں وہ وعدہ یاد نہیں رہا جو انہوں نے دھماکوں کے تاریخی دن قوم سے کیا تھا۔ اگر ہماری حکومت ڈیم بنانا چاہے تو یہ مشکل کام نہیں‘ پارلیمنٹ میں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اس کی منظوری لی جانی چاہیے‘ ہم سر پھٹول کا شکار ہیں اور قومی ا ور ملکی مفاد کا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ بس پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں، بلبلاتے ہیں کہ پینے کو پانی نہیں، چیختے ہیں کہ صاف پانی میسر نہیں، روتے ہیں کہ فصلوں کے لیے پانی نہیں مگر پانی کی فراہمی کی ہر تجویز کی مخالفت کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ ملک میں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی سامنے آ چکی ہے۔ اوپر سے گرمی اس قدر بے پناہ ہے کہ ہمارے گلیشیئر بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس طرح خدشہ ہے کہ ملک زیادہ بارشوں اور گلشیئرز سے آنے والے پانی کی وجہ سے انیس سو دس جیسے بڑے سیلاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔ ہمارے پاس سیلابی پانی کو بھی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیم نہیں اس لیے یہ سیلاب خیبر پی کے، گلگت پنجاب اور سندھ میں بڑی تباہی مچا سکتا ہے نگرانوں کو ادھر بھی کچھ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔