عید قریب آنے کے ساتھ پانی کی قلت بڑھنے لگی، واٹر بورڈ ناکام

219

کراچی (تجزیہ: محمد انور) عیدالفطر قریب آنے کے ساتھ شہر میں پانی کی قلت میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جبکہ واٹر بورڈ شہریوں کو لائنوں کے ذریعے پانی فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتا ہے‘ ایسا نہیں ہے کہ شہر میں دریائے سندھ اور حب ڈیم سے پانی کی فراہمی میں کمی آئی ہے جو پانی دریائے سندھ سے ان دنوں شہر کو مل رہا ہے وہ گزشتہ ایک سال سے اسی مقدار میں مل رہا ہے البتہ حب ڈیم سے پانی کی فراہمی اب صرف20 ملین گیلن یومیہ رہ گئی ہے جس کی وجہ ڈیم کا ذخیرہ شدہ پانی بتدریج کم ہونا ہے اس ڈیم سے6 ماہ قبل تک صرف65 ملین گیلن پانی ملا کرتا تھا جبکہ دریائے سندھ سے443 ملین گیلن پانی مسلسل مل رہا
ہے۔ ایسے میں صرف جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی پبلک ہیلپ کمیٹی لوگوں کو پانی دلانے کے لیے ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔31 مئی کو جب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں واٹر بورڈ کے دفاتر واقع شاہراہ فیصل پر احتجاجی دھرنا دیا گیا تو ایم ڈی خالد محمود شیخ نے یقین دلایا تھا کہ “جلد پانی کی قلت دور کردی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں کی وجہ سے پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ واٹر بورڈ دستیاب پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے اقدامات کر رہا ہے”۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کے دعوے اور باتیں اپنی جگہ لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ پانی کے ڈسٹری بیوشن کے نظام کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ واٹر بورڈ کو مکمل تجارتی ادارہ بنا دیا گیا ہے اس مقصد کے لیے فری ٹینکر سروس بند کردی گئی اور ہیلپ لائن متعارف کرادی گئی مگر ہیلپ لائن کے نمبرز کون ریسیو کرے گا یہ سوال روزانہ سیکڑوں صارفین پوچھنے کے لیے ہائنڈرنٹس پر پہنچ جاتے ہیں۔ ہائینڈرنٹس کا جائزہ لینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ شہری کس اذیت کا شکار ہیں۔ شہر کے اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، لیاری، نئی کراچی کے لوگوں کو مفت پانی دینے کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو حکام نے ذمے داری دی ہے جس کے بعد ڈی سی کی درخواست پر یومیہ بنیادوں پر ٹینکرز کے ذریعے ان عوامی ٹنکیوں میں پانی پہنچانے کا دعویٰ کیا جانے لگا جو علاقوں میں قائم ہیں تاہم اورنگی ٹاؤن کے علاقے غازی آباد میں رہنے والے ایک اخباری کارکن کمال اشرف کا کہنا ہے کہ میں نے غازی آباد میں کوئی عوامی ٹنکی نہیں دیکھی البتہ برتن اٹھائے پانی کے متلاشی لوگوں کا ہجوم ضرور دیکھتا ہوں ۔ پانی کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے افراد اس صورتحال پر واٹر کمیشن اور نگراں حکومت کو بھی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید یہ مسئلہ حل کرادیں۔و اٹر بورڈ کے ایم ڈی کا کہنا ہے کہ ضلع غربی میں ٹینکروں کے ذریعے یومیہ 4 لاکھ اور ضلع جنوبی میں 1 لاکھ 50 ہزار گیلن یومیہ پانی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے غریب بستیوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ ایم ڈی کی بات درست ہوسکتی ہے مگر حقیقت میں اتنا پانی کسی علاقے میں کم از کم ٹینکروں کے ذریعے مفت میں کہیں پہنچاتے ہوئے نظر نہیں آتا۔