آداب زندگی

378

راستے کے اآداب

مولانا یوسف صلاحی
1۔ راستے میں درمیانی چال چلیے نہ اتنا جھپٹ کر چلیے کہ خواہ مخواہ لوگوں کے لیے تماشا بن جائیں اور نہ اتنے سست ہو کر رینگنے کی کوشش کیجئے کہ لوگ بیمار سمجھ کر بیمارپرسی کرنے لگیں ۔ نبی ؐ قدم لمبے لمبے رکھتے اور قدم اٹھا کر رکھتے قدم گھسیٹ کر کبھی نہ چلتے ۔
2۔ ادب و وقار کے ساتھ نیچے دیکھتے ہوئے چلیے ۔ اور راستہ میں اِدھر اُدھر ہ چیز پر نگاہ ڈالتے ہوئے نہ چلیے۔ ایسا کرنا سنجیدگی اور تہذیب کے خلاف ہے ، نبی ؐ چلتے وقت اپنے بدن مبارک کو آگے کی طرف جھک کر چلتے جیسے کوئی بلندی سے پستی کی طرف اُتر رہا ہو ۔ آپ ؐ وقار کے ساتھ ذرا تیز چلتے اور بدن کو چست اور سمٹا ہوا رکھتے اور چلتے ہوئے دائیں بائیں نہ دیکھتے ۔
3۔ خاکساری کے ساتھ دبے پائوں چلیے ۔ اکڑتے اور اتراتے ہوئے نہ چلیے نہ تو آپ اپنی ٹھوکر سے زمین کو پھاڑ سکتے ہیں ۔ اور نہ پہاڑوں کی اونچائی کو پہنچ سکتے ہیں پھر بھلا اکھڑنے کی کیا گنجائش ہے!
4۔ہمیشہ جوتے پہن کر چلیے ننگے پائوں چلنے پھرنے سے پرہیز کیجیے جوتے کے ذریعے پائوں کانٹے ، کنکر اور دوسری تکلیف دہ چیزوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور موذی جانوروں سے بھی بچے رہتے ہیں ۔ نبی ؐ نے فرمایا’’ اکثر جوتے پہنے رہا کرو ۔ جوتا پہننے والا بھی ایک طرح کا سوار ہوتا ہے ۔ ‘‘
5۔ راستہ چلتے میں حسنِ ذوق اور تہذیب و وقار کا بھی لحاظ رکھیے یا تو دونوں جوتے پہن کر چلیے یا دونوں جوتے اتار کر چلیے ۔ ایک پائوں ننگا اور ایک پائوں میں جوتا پہن کر چلنا بڑی مضحکہ خیز حرکت ہے ۔ اگر واقعی کوئی معذوری نہ ہو تو اس بد زوقی اور بے تہذیبی سے سختی کے ساتھ بچنے کی کوشش کیجیے ۔ نبی ؐ کا ارشاد ہے ’’ ایک جوتا پہن کر کوئی نہ چلے یا تو دونوں جوتے پہن کر چلیے یا دونوں اتار کر چلے ۔ ( شمائل ترمذی)
6 ۔چلتے وقت اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر چلیے تاکہ اُلجھنے کا خطرہ نہ رہے نبیؐ چلتے وقت اپنا تہبند ذرا اٹھا کر سمیٹ لیتے ۔
7۔ ہمیشہ بے تکلفی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ چلیے ۔ آگے چل چل کر اپنی امتیازی شان نہ جتایے ۔ کبھی کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ ہاتھ میں لے کربھی چلیے نبیؐ ؐ ساتھیوں کے ساتھ چلتے میں کبھی اپنی امتیازی شان ظاہر نہ ہونے دیتے ۔ اکثر آپ ؐ صحابہ کے پیچھے پیچھے چلتے اور کبھی بے تکلفی میں اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑکر بھی چلتے ۔
8۔ راستے کا حق ادا کرنے کا بھی اہتمام کیجیے۔ راستے میں رک کر یا بیٹھ کر آنے جانے والوں کو تکنے سے پرہیز کیجیے اور اگر کبھی راستہ میں رکنا یا بیٹھنا پڑے تو راستہ کا حق ادا کرنے کے لیے چھ باتوں کا خیال رکھیے ۔
oنگاہ نیچی رکھیے ۔
o تکلیف دینے والی چیزوں کو راستے سے ہٹا دیجیے ۔
o سلام کا جواب دیجیے ۔
o نیکی کی تلقین کیجیے اور بری باتوں سے روکیے ۔
o بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھایے
o اور مصیبت کے مارے ہوئوں کی مدد کیجئے ۔
9۔ راستے میں ہمیشہ اچھے لوگوں کا ساتھ پکڑیے ۔ برے لوگوں کے ساتھ چلنے سے پرہیز کیجیے ۔
10۔راستے میں عورت اورمرد مل جل کر نہ چلیں ۔ عورت کو بیچ راستے سے بچ کر کنارے کنارے چلنا چاہیے اور مردوں کو چاہیے کہ ان سے بچ کر چلیں ۔نبی ؐ نے فرمایا ۔ گارے میں اٹے ہوئے اور بد بو دار سڑی ہوئی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے سور سے ٹکرا جانا تو گوارا یا جا سکتا ہے ، لیکن یہ گوارا کرنے کی بات نہیں ہے کہ کسی مرد کے شانے کسی اجنبی عورت سے ٹکرائیں
11۔ شریف عورتیں جب کسی ضرورت سے راستے پر چلیں ، تو برقعے یا چادر سے اپنے جسم ، لباس اور زیب و زینت کی ہر چیز کوخوب اچھی طرح چھپا لیں اور چہرے پر نقاب ڈالے رہیں ۔
12۔ کوئی ایسا زیور پہن کر نہ چلیے ۔ جس میں چلتے وقت جھنکار پیدا ہو یا دبے پائوں چلیے تاکہ اس کی آواز اجنبیوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے ۔
13۔ عورتیں پھیلنے والی خوشبو لگا کر راستے پر نہ چلں ۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی ؐ نے نہایت سخت الفاظ فرمائے ہیں ۔
14۔ گھر سے نکلیں تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر یہ دعا پڑھیے ۔
’’خدا ہی کے نام سے ( میں نے باہر قدم رکھا) اور اسی پر میرا بھروسا ہے ۔ خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ہم لغزش کھا جائیں یا کوئی دوسرا ہمیں ڈگمگا دے ۔ ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکا دے ۔ ہم خود کسی پر ظلم کربیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کرے ہم خود نادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جہالت کا برتائو کرے ۔ ‘‘
15۔بازار جائیں تو یہ دعا پڑھیے ۔
’’خدا کے نام سے ( بازار میں داخل ہوتا ہوں) خدایا! میں تجھ سے اس بازار کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی چاہتا ہوں، اور اس بازار کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ خدایا! تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ یہاںمیں جھوٹی قسم کھا بیٹھوں یا ٹوٹے کاکوئی سودا کر بیٹھوں ۔ ‘‘
حضرت عمر بن خطاب ؓ کا بیان ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا جو شخص بازار میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھ لے خدا اس کے حساب میں دس لاکھ نیکیاں درج فرمائے گا ۔ دس لاکھ خطائیں معاف فرما دے گا اور دس لاکھ درجات بلند کر دے گا ۔
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اقتدار اسی کا ہے وہی شکر و تعریف کا مستحق ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے ،وہ زندۂ جاوید ہے اس کے لیے موت نہیں ساری بھلائی اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔