جوڈیشل ایکٹو ازم

332

ملتان کی ایک عدالت نے جج پر جوتا اُچھالنے والے ملزم کو اٹھارہ سال قید بامشقت اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزا سنادی ہے۔ ملزم چوری کے ایک مقدمے میں پیش ہوا تھا، عدالت میں داخل ہوتے ہی اپنا جوتا اُتار کر جج صاحب کی جانب پھینک دیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔ شنید ہے جج صاحب اسے چوری کے کئی مقدمات میں سزا سنا چکے ہیں، ملزم نے ہر بار اپنی صفائی میں کہا کہ اسے ملازمت دلا دی جائے وہ چوری سے تائب ہوجائے گا مگر عدالتیں ملازمت نہیں سزا دیتی ہیں اور سزا کا انتخاب ملزم کو خود کرنا ہوتا ہے۔ (کون سا جرم کروں خود کشی یا چوری)۔ اس کی تعریز اجل، اس کی سزا کوڑے ہیں۔ اس پس منظر میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ملزم نے جج صاحب کی توجہ حاصل کرنے کی غرض سے جوتا کاری کا مظاہرہ کیا ہو۔ یہاں یہ سوال کسی عفریت کی طرح سر اُٹھاتا ہے کہ جو شخص تین بار ملک کا وزیراعظم رہا ہو، اسے جوتا کاری کا نشانہ بنایا گیا تو عدالت نے جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عراق کے ایک صحافی نے امریکی صدر کو اپنے جوتے کا ہدف بنایا تو اسے چند سال کی سزا سنائی گئی تھی گویا ہمارے نظام عدل میں جج پر جوتا اچھالنا قتل سے بڑا جرم ہے۔ قتل کے مقدمے میں عموماً چودہ سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، جج پر جوتا اچھالنے والے کو 18 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اور یہ ساری کارروائی صرف ایک پیشی پر ہوئی ہے غالباً جوتا کاری کے ملزم کو اپیل کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے تو کیا؟ یہ باور کرلیا جائے کہ انصاف صرف انصاف فراہم کرنے والوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے اور سائلین کے لیے صرف پیشی پیشی کا مکروہ کھیل مقسوم بنادیا گیا ہے۔
ہمارے ایک عزیز نے اپنا مکان کسی دوست کو سر چھپانے کی غرض سے دیا تھا اور وہ خود ملازمت کے سلسلے میں دوسرے صوبے میں منتقل ہوگئے تھے۔ دس پندرہ برس کے بعد واپس آئے تو یہ دل آزار انکشاف ہوا کہ دوست نے مکان کی جعلی دستاویزات بنوالی ہیں۔ محکمہ مال سے رجوع کیا گیا تو علم ہوا کہ فرد ملکیت میں گڑبڑ کی گئی ہے مکان خالی کرانے کی کوشش کی گئی تو جعل ساز عدالت جا پہنچا۔ سول کورٹ میں مقدمہ تقریباً 9 برس زیر سماعت رہا اور عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہوگیا۔ جعل ساز نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کردی، یہاں پر مقدمہ ایک دو برس بعد خارج ہوگیا تو جعل ساز ہائی کورٹ چلا گیا اور اب لگ بھگ پانچ سال سے مقدمہ زیر سماعت ہے مگر کبھی سماعت نہیں ہوئی، کبھی پیشی ملتوی کردی جاتی ہے کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا مار دیا جاتا ہے، کبھی وکیل آؤٹ آف اسٹیشن ہوتے ہیں، کبھی جسٹس صاحب رخصت پر ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار صاحب حیران ہیں کہ مقدمات کو جلد از جلد کیسے نمٹایا جائے مگر جو کام کرنے کا ہے اس سے گریزاں ہیں۔ خدا جانے اس چشم پوشی اور اغماحق کا مقصد کیا ہے؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ خبروں میں رہنا ان کا من پسند مشغلہ ہے ورنہ انصاف کی جلد فراہمی کوئی مشکل کام نہیں، وکلا کی قانونی موشگافیاں اور تاخیری حربے کسی بھی مقدمے کو شیطان کی آنت بنادیتے ہیں اور شیطان کی آنت کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ جعلی مقدمات کی سماعت عدالتوں پر بوجھ کا سبب بنتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جعل سازی کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کو اپیل در اپیل کی سہولت مدعا علیہ کو مالی امداد اور ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے اور نسل در نسل عدالتوں کے چکر لگانے اور وکلا کے گھروں اور چیمبروں کے دھکے کھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کالے کوٹ کالا علم بن جائیں تو انصاف کی دیوی کالی دیوی بن جاتی ہے۔