کم ٹرمپ ملاقات ،کیاخطرہ ٹل گیا ؟

278

سنگاپورکے ایک جزیرے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان اہم ملاقات سے امن عالم پر منڈلاتے خطرات کے سائے کسی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ سوموار کو ہونے والی یہ ملاقات بین الاقوامی میڈیا کا اہم ترین موضوع تھی اور دنیا کے اہم ٹی وی چینل اس ملاقات کی کارروائی کو لائیو دکھاتے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات کو ایماندارانہ اورتعمیری قرار دیا۔یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم تھی کہ گزشتہ ایک برس سے امریکی صدر اورشمالی کوریائی لیڈر کے درمیان سخت جملوں اور دھمکی آمیز بیانات کا تبادلہ جا ری تھا اور یہ بیان بازی ایک اور عالمی جنگ کے خدشات وخطرات کو بڑھانے کا باعث بن رہی تھی۔ ایک دوسرے پرمیزائلوں اور ایٹم بموں کی بارش کر نے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور ایک دوسرے کی تباہی کو ایک بٹن دبانے کی دوری پر قراردیا جا رہا تھا۔ ان جملوں کو دنیا میں جہاں سنجیدگی سے لیا جارہا تھا اور اس عالمی امن کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا تھا وہیں دُنیا بھر کے اخبارات دونوں رہنماؤں کے درمیان مضحکہ خیز اور ذومعنی جملوں پر دلچسپ کارٹوں بھی بنا رہے تھے۔ ایک طرف خوف اور سنجیدگی ہوتی تو دوسری جانب اس بڑھک بازی کا مذاق اُڑایاجا رہا تھا۔ کبھی کبھار یوں لگ رہا تھا کہ شمالی کوریا اور امریکا اچانک ٹکرا جائیں گے اور چار وناچار دونوں کے اتحادیوں کو بھی اس جنگ میں کودنا پڑے گا۔ بالخصوص عوامی جمہوریہ چین جو شمالی
کوریا کا اتحادی ہے اس لفظی جنگ اور کشمکش کو قریب سے دیکھ رہے تھا۔ چین نے اس کشمکش میں اپنے اتحادی ملک شمالی کوریا کی جا وبے جا حمایت کرنے کے بجائے امن کو راہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ اس حوالے سے اقوم متحدہ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی راہ پرگامزن رہا جس سے کشیدگی کا دائرہ وسیع نہ ہوسکا۔ خود امریکی صدر ٹرمپ کو بھی ان کے مشیروں نے یہ باور کرایا کہ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کو مزید ہوا دینا اس کے مفادات کو بری طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے یوٹرن لیتے ہوئے شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان سے اچانک ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔ اب بہت سے اندیشوں، وسوسوں اور قیاس آرائیوں میں یہ ملاقات ہو گئی اور دونوں کے درمیان ایک اہم معاہدہ بھی ہوا۔ جس کے تحت شمالی کوریا میزائل تجربات کی ایک تجربہ گاہ کو تباہ کرنے پر آمادہ ہو ا اور امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی وار گیمز روک دے گا۔ امریکا کو اس مقام تک لانے میں شمالی کوریا کے لیڈر کی جرات مندی کا بھی گہرا دخل ہے۔ جب
امریکا بٹن دبا کر شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہاتھا تو شمالی کوریا بھی ترکی بہ ترکی جواب دے کر امریکیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اس سوچ وبچا ر نے امریکیوں کو جنگ بازی کا شوق ترک کرکے کم جونگ ان سے مفاہمت کی راہ پر ڈالا۔ جزیرہ نما کوریا میں بظاہر تو امن عالم کو لاحق ایک خطرہ ٹل گیا مگر ملاقاتوں اور مصافحوں، خیر سگالی پر مبنی جذبات اور جملوں کے پیچھے کیا چھپا ہے؟ یہ راز ابھی تک سات پردوں میں مستورہی ہے۔ فی الحال ٹرمپ کی بلے بلے ہوگئی اور افغانستان میں کامیابی کی موہوم امید رکھنے والے ٹرمپ کو ایک ایسی کشیدگی اور خطرے کو کم کرنے کی کامیابی ملی جسے پیدا کر نے اور بڑھانے میں خود امریکا بلکہ ٹرمپ کا کردار نمایاں تھا۔ چین کا اتحادی ہونے کی وجہ سے امریکا یوں بھی شمالی کوریا پر مہربان نہیں رہا مگرنائن الیون کے بعد مغضوب الغضب امریکی صدر جارج بش نے جن ملکوں کو بدی کے محور قرار دے کر نشانے پر رکھا تھا اس فہرست میں میں جنوبی کوریا واحد غیر مسلم ملک تھا وگرنہ اس فہرست کے چار ملک اسلامی ہی تھے جن میں ایران، شام اور عراق شامل تھے۔ جنوبی کوریا کے ساتھ چوں کہ امریکا کی گاڑھی چھنتی تھی اور جاپان بھی امریکا کو ایشیا میں عزیز تھا اس لیے شمالی کوریا کی ان ملکوں کے ساتھ جاری کھٹ پھٹ امریکا کو گوار ہ نہیں تھا۔ جنوبی کوریا اور جاپان امریکا کے زیر اثر تھے اور شمالی کوریا خطے میں چین کا قابل اعتماد اتحادی تھا اس لیے یہ کشمکش چین اور امریکا کی رسہ کشی قراردی جا رہی تھی یہ بات کسی حدتک درست بھی تھی۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک خوفناک جنگ کا خطرہ ٹل تو گیا کیوں کہ فریق ہاتھ ملا کر اور کچھ کاغذوں اور فائلوں کے تبادلے کے بعد خوش نظرآرہے ہیں مگر اسی براعظم کا ایک اور علاقہ بدستور ایٹمی جنگ کے خطرات کے سایوں تلے رینگ رہا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا ہے ہے جو تاریخ کا بوجھ اُٹھا ئے اُٹھائے پھر رہاہے اور محض اپنی اناوں کے زخمی ہونے کے خوف سے اس بوجھ کو پٹخنے پر تیار نہیں۔ پاکستان اور بھارت سات عشروں سے کشیدگی کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بلکہ اسے آبگینے کی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔ جزیرہ نما کوریا کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی ایک نیوکلیئر جنگ کا خطرہ بدستور موجود ہے جہاں کشمیر دو اہم ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازع بن کر رہ گیا ہے۔ یہ دنیا کا واحد کشیدہ خطہ جہاں د وایٹمی ہتھیاروں کی حامل فوجوں میں باقاعدہ چھوٹے تصادم بھی جاری ہیں اور ان میں انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کا الاؤ شمالی کوریا سے زیادہ پر خطر اور تباہ کن ہے مگر دنیا اس پر پوری طرح توجہ نہیں دے رہی۔ شمالی کوریا میں امن کی کامیاب کوشش کے بعد اب امریکا اور چین جیسے ملکوں کو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔