قوموں کی تاریخ میں بسا اوقات ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے جسے محاورے کے مطابق نہ نگلا جاسکتا ہے نہ اُگلا جاسکتا ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ اور غلبہ بھی ایک ایسی ہی صورت حال تھا۔ انگریزوں کی عسکری طاقت جدید اور غیر معمولی تھی اور اس کا مقابلہ آسان نہ تھا۔ رہی سہی کسر مسلمانوں کی داخلی کمزوریوں نے پوری کردی تھی۔ انگریزوں کے غلبے کے وقت مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر صرف نام کا بادشاہ رہ گیا تھا۔ مغل سلطنت کی وہ داخلی توانائی جو اورنگ زیب کے زمانے میں ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھی اور جسے اورنگ زیب 50 سال تک سنبھالے رہا، بہادر شاہ ظفر کے عہد تک آتے آتے پوری طرح آشکار ہوگئی تھی۔ اس صورتِ حال آتے آتے پوری طرح آشکار ہوگئی تھی۔ اس صورتِ حال میں مزاحمت کی خواہش رکھنے والے بھی دو باتیں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم ابھی قوم نہیں ہیں۔ دشمن بہت طاقتور ہے چناں چہ ہم پہلے اس کے مقابلے کے لیے کچھ قوت مہیا کرلیں۔ قوت مہیا ہوگئی تو ہم دشمنی کے خلاف صف آرا ہوں گے اور اپنی آزادی کی بازیافت کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح کے حالات میں انسان دوسری بات یہ سوچتا ہے کہ تاریخ انسان کو بسا اوقات ایسا ’’موقع‘‘ بھی فراہم کردیتی ہے جو کسی کوشش کا حاصل نہیں ہوتا مگر اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر غلامی کی زنجیروں کو توڑا جاسکتا ہے۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ذہنیت اتنی غلامانہ تھی کہ ان کے ذہن میں بھی یہ دو باتیں اضطراری خیال کے طور پر بھی نہ آسکیں۔ آتیں تو سرسید کی تحریروں میں کہیں نہ کہیں ان کی کوئی شہادت موجود ہوتی۔ سرسید ان کی شخصیت اور طرزِ فکر و عمل کو دیکھ کر خیال آتا ہے جس طرح بعض لوگ پیدائشی اندھے یا پیدائشی گونگے ہوتے ہیں اسی طرح سرسید ’’پیدائشی غلام‘‘ اور وہ بچپن سے غلامی کا ’’انتظار‘‘ کررہے تھے۔ غلامی آئی تو انہوں نے ایک ’’محبوبہ‘‘ کی طرح اس کا استقبال کیا اور کہا بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ بلکہ سرسید کے زمانے میں یہ شعر تخلیق ہوچکا ہوتا تو سرسید غلامی کو یہ شعر ضرور سناتے۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اِس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
سرسید عشق رسول کے دعوے دار تھے مگر انہیں عمر کے آخری حصے میں بھی یہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ رسول اکرمؐ کی پوری حیات طیبہ حق کے اثبات اور باطل کی فکری و عملی مزاحمت سے عبارت ہے اور مزاحمت بھی کیسی؟ غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کی قوت مٹھی بھر بھی نہ تھی مگر کسی ایک مسلمان نے بھی خدا سے یہ شکوہ نہ کیا کہ تو 313 افراد کو ایک ہزار کے لشکر جرارکے سامنے کیوں کھڑا کررہا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ مسلمان حق کی گواہی دینے کے پابند ہیں، فتح یاب ہونے کے نہیں۔ فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بدر میں مسلمانوں کو فتح مل گئی مگر رسول اکرمؐ کی موجودگی کے باوجود اگلے ہی معرکے میں مسلمانوں کو شکست ہوگئی۔ بلاشبہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کی ہدایت سے روگردانی کی مگر وجہ کوئی بھی ہو شکست بہرحال شکست ہوتی ہے۔ خیر سیرت طیبہؐ کی مثال تو سب سے بڑی مثال ہے۔ چنگیز خان کے مقابلے میں جلال الدین خوارزم کی حیثیت ایک بچے کی تھی مگر اس بچے نے چنگیز خان کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ خلیفہ بغداد اس کی مدد پر آمادہ ہوجاتا تو جلال الدین تاریخ کو بدل دیتا۔ خود برصغیر میں ٹیپو اور سراج الدولہ نے اسلام کے مزاحمتی جذبے کی لاج رکھی۔ مگر سرسید کو نہ سیرت طیبہؐ کا تجربہ یاد تھا نہ انہیں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی مزاحمت میں کوئی معنی نظر آتے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی اتنا بڑا اور غیر متوقع تجربہ تھا کہ انگریزوں کی سلطنت ہل کر رہ گئی۔ سرسید میں آزادی کی رَتی برابر بھی رمق ہوتی تو وہ اس جنگ آزادی کو ایک ’’موقع‘‘ سمجھ کر جنگ آزادی میں شریک ہوسکتے تھے اور اپنی ’’وفاداری‘‘ بدل سکتے تھے۔ 20 ویں صدی میں اس حوالے سے ایک بہت بڑی اور عجیب و غریب مثال موجود ہے۔ اردن کے شاہ حسین سرسید کی طرح پیدائشی غلام تھے۔ انہیں ہمیشہ امریکا کے جوتے چاٹتے ہوئے دیکھا گیا۔ امریکا بھی انہیں نوازتا رہتا تھا مگر خلیج کی جنگ کے وقت شاہ حسین کو نہ جانے کس بنیاد پر اس بات کا یقین ہوگیا کہ امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو فتح صدام حسین کی ہوگی۔ اس تجزیے کے تحت انہوں نے اچانک نہیں بالکل اچانک اپنی وفاداری تبدیل کرلی۔ وہ امریکا زندہ باد کے بجائے صدام حسین زندہ باد کہتے ہوئے نظر آئے۔ بلاشبہ شاہ حسین کا تجزیہ غلط ثابت ہوا مگر ان کی وقتی قلب ماہیت نے ظاہر کیا کہ وہ امریکا کے غلام ہیں مگر وہ غلامی کو بہرحال اچھا نہیں سمجھتے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا دائرہ وسیع تھا۔ دلّی اور یوپی
کے بڑے بڑے مراکز میں بغاوت ہوچکی تھی۔ مگر سرسید کو ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہ آیا کہ ہوسکتا ہے یہاں سے آزادی کا کوئی راستہ نکلے۔ اس کے برعکس انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کو ’’سانحہ‘‘ قرار دیا اور آزادی کے مجاہدین کو سرسید نے فسادی اور حرامزادے قرار دیا۔ انگریزوں کی لائی ہوئی فکر نے سرسید کے ’’مذہبی عقائد‘‘ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے جنت و دوزخ کا انکار کیا۔ فرشتوں اور جنوں کے وجود کا انکار کیا۔ رسول اکرمؐ کی جسمانی معراج کا انکار کیا۔ مگر 1857ء کی جنگ آزادی کا عظیم الشان واقعہ سرسید کے ’’عقیدہ غلامی‘‘ کو رَتی برابر بھی متاثر نہ کرسکا۔ بلکہ اس واقعے نے سرسید کو ’’عقیدہ غلامی‘‘ کے حوالے سے زیادہ ’’راسخ العقیدہ‘‘ بنا دیا۔ 1857ء سے قبل سرسید انگریزوں کے لیے ’’قلم کے سپاہی‘‘ کا کردار ادا کررہے تھے مگر 1857ء نے انہیں انگریزوں کے لیے ’’بندوق والا سپاہی‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس کا ذکر خود سرسید سے سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’جب غدر ہوا میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتہً سرکشی میرٹھ کی خبر بجنور پہنچی۔ اوّل ہم نے جھوٹ جانا مگر جب یقین ہوا تو اسی وقت سے میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی۔ بہرحال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی کا پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظتی جان کا خاص اپنے ذمے اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن سے ہتھیار اُترا ہو‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 121)
سرسید نے مسلمانوں کے لیے نہ خود ہتھیار اُٹھایا نہ کسی کے ہتھیار اُٹھانے کو پسند کیا مگر 1857ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے مسلح ہو کر انگریزوں کے جان و مال کی حفاظت کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے اس قبیح فعل کو انہوں نے خدا اور رسولؐ سے منسوب کیا۔ فرمایا۔
’’میں نے جو کچھ کیا اپنے خداا و رسولؐ کی اطاعت کی‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 121)
سوال یہ ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں رسول اکرمؐ نے احادیث مبارکہ میں کہاں کہا ہے کہ کافروں اور مشرکوں کو اسلام اور اُمت مسلمہ پر مسلط ہونے دو اور جب وہ مسلط ہوجائیں تو ان کی مزحمت نہ کرو بلکہ ان کی حفاظت کرو خواہ تمہاری جان ہی کیوں نہ داؤ پر لگ جائے؟ قرآن و حدیث میں اس حوالے سے اشارہ تک موجود نہیں۔ اس سلسلے میں ایک مقام پر سرسید نے اولی الامرکی اطاعت کے حکم خداوندی کا حوالہ دیا ہے مگر اس حکم میں خدا نے کہا ہے کہ ان اولی الامرکی پیروی کرو ’’جو تم میں سے ہوں‘‘۔ تو کیا انگریز مسلمانوں میں سے تھے؟ رہا رسول اکرمؐ کا معاملہ تو سرسید احادیث کے صحیح مجموعوں تک کو ناقابل اعتبار قرار دے چکے تھے مگر جب سرسید کو کوئی جھوٹ بولنا ہوتا تھا تو وہ احادیث کو بھی اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
انگریز برصغیر پر مسلط ہوئے تو انہوں نے مسلم نوابین کو اپنے ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش کی اور نوابین کی بڑی تعداد اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انگریزوں کے ساتھ مل گئی۔ مگر 1857ء کی جنگ آزادی نے ایسے نوابین کو اردن کا شاہ حسین بنا کر کھڑا کردیا۔ ان میں سے ایک نواب نے سرسید کو بلایا اور اپنے ساتھ انگریزوں کے خلاف مزاحمت میں شریک ہونے کی دعوت دی اور اس کے عوض جاگیر کی پیشکش کی۔ مگر سرسید نے فرمایا۔
’’اگر تمہارا ارادہ ملک گیری اور انگریزوں سے لڑنے کا ہے تو میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں۔۔۔ خدا کی قسم نواب صاحب میں صرف تمہاری خیر خواہی کے لیے کہتا ہوں تم اس ارادے کو دل سے نکال دو۔ حکام انگریز کی عمل داری کبھی جانے کی نہیں‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 125)
سرسید کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی بلاشبہ 1857ء کی جنگ آزادی سے انگریزوں کی حکومت ختم نہ ہوئی مگر سرسید نے اپنی گفتگو میں مزاحمت کے خلاف کوئی مذہبی یا اخلاقی دلیل نہیں دی۔ وہ انگریزوں کو بہت برتر اور قوی سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ انگریز کبھی واپس نہ جانے کے لیے ہندوستان میں آئے ہیں۔ مگر 1947ء میں کسی مسلح جدوجہد کے بغیر انگریزوں کو ہندوستان سے جانا پڑ گیا۔ سرسید زندہ ہوتے تو وہ قائد اعظم ہی کو نہیں گاندھی اور نہرو کو بھی اسی طرح گالیاں دیتے جس طرح انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے رہنماؤں اور مجاہدین کو گالیاں دی ہیں۔ سرسید کہتے یہ جناح اور یہ گاندھی بھی کوئی لیڈر ہیں؟ آخر وہ شخص ہندوؤں اور مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہوسکتا ہے جو انگریز قوم سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آزاد کرائے؟۔
سرسید نے 1857ء میں انگریزوں کی جو خدمت کی اس کے صلے میں انگریزوں نے سرسید پر نوازشات کی بارش کردی۔ اسپیشل کمشنر جان کری کرافٹ ولسن سرسید سے ملنے آیا۔ اسپیشل کمشنر نے سرسید سے کیا کہا سرسید کی زبانی سنیے۔
’’میرے آقا مجھے دیکھنے آئے۔۔۔ اور مجھ سے یہ بات کہی کہ تم ایک ایسے نمک حلال نوکر ہو جس نے نازک وقت میں بھی سرکار کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اس کے صلے میں اگر تمہاری ایک تصویر بنا کر پشت ہاپشت کی یاد گاری اور تمہاری اولاد کی عزت و فخر کے لیے رکھی جائے تو کم ہے‘‘۔
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 135)
سرسید کو ساری زندگی نہ خدا کی نمک حلالی پر فخر ہوا نہ اسلام اور نہ امت کی نمک حلالی پر مگر انگریزوں کی نمک حلالی کا ذکر انہوں نے ایسے فخر کے ساتھ کیا ہے جیسے انہیں دو جہانوں کی دولت مل گئی ہو۔ اللہ اکبر۔