عید مبارک

493

آج پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں عید الفطر منائی جارہی ہے اور جن ممالک میں جمعرات کو چاند نظر آگیا وہاں جمعہ کو عید کرلی گئی۔ یہ بالکل سیدھا سامعاملہ ہے کہ چاند نظر آجائے تو عید منالو اور نہ نظر آئے تو ایک روزہ اور رکھ کر اپنے رب کا شکر ادا کرو کہ اس نے مغفرت اور جہنم سے نجات کی کوشش کے لیے مزید ایک دن عطا کردیا۔ رویت ہلال کو پاکستان میں خاص طور پر ہر سال متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید منائی جائے لیکن اس کا فائدہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اذان اور نماز بھی پورے عالم اسلام میں ایک ساتھ ہونی چاہیے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے کہ کہیں سورج پہلے طلوع ہوتا ہے کہیں بعد میں اور اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔ یہ زمین چونکہ گول ہے اس لیے ہر علاقے کا مطلع بھی مختلف ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوااور اس سے منسلک فاٹا میں برسوں سے پاکستان سے ہٹ کر عید ایک دن پہلے منالی جاتی ہے۔ اس بار بھی مفتی پوپلزئی نے اجتماعیت کی نفی کرتے ہوئے جمعہ کو عید کا اعلان کردیا۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ انہیں مستند شہادتیں موصول ہوگئی ہوں گی۔ بہر حال جب ایک ملک میں ایک دن عید نہیں ہوتی تو پورے عالم اسلام میں اس کی توقع کرنا عبث ہے۔ اب سرکاری سطح پر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پورے ملک میں ور نہ کم ازکم ایک شہر میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز ہو۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ اس میں حکمت کیا ہے۔ مختلف مسالک میں اذان اور نماز کے اوقات مختلف ہیں اور اس میں خوبی یہ ہے کہ دیر تک اذان کی آواز بلند ہوتی رہتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں نماز اور فلاح کی طرف بلاوے کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو بھی کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے کوئی شغل درکار ہوتا ہے۔ بہر حال، رمضان کریم اپنی رحمتوں کی بارش برساکر گزر گیا۔ اب نجانے کتنے لوگ ہوں گے جن کو ایک اور موقع مل سکے گا۔ چاند رات دراصل اپنا احتساب کرنے کا موقع ہے کہ رمضان کریم کی برکتوں سے کتنا فیض حاصل کیا گیا۔ یہ اپنا احتساب کرنے کی رات ہے جسے اکثریت بازاروں کی چہل چہل میں گم ہوکر بھلابیٹھتی ہے۔ اب یہ وقت گزرگیا لیکن جن کو اگلا موقع ملے وہ آخری عشرہ اور چاند رات بازاروں میں گزارنے سے گریز کریں ۔ عید کا دن بھی فضولیات میں گزارنے کا نہیں ہے۔ اسلام میں خوشی منانے اور اس کا اظہار کرنے سے روکا نہیں گیا لیکن ہر معاملے میں حدود مقرر کردی گئی ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے تو نماز عید کا دوگانہ ادا کرکے اپنے رب کی رحمتوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے ار اس سے پہلے فطرہ کی صورت میں ضرورت مندوں اور مسکینوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کی تاکید ہے۔ یہ ایسا موقع ہے کہ رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ساتھیوں سے اگر کوئی رنجش ہے تو اسے دور کرلیا جائے۔ چنانچہ مسلمان عموماً ایک دوسرے سے ملنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ایسے میں غریب رشتے داروں اور ساتھیوں کو گلے لگانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ عید کے موقع پر ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق اچھے سے اچھا کھانا بنواتا ہے اور دعوتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جس دعوت میں غریب رشتے داروں، مسکینوں کو شریک نہ کیا جائے وہ دعوت اللہ کو پسند نہیں ہے۔ آج کے دن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مولائے کائنات اللہ رب العزت کی خوشنودی کو ہر معاملے میں مقدم رکھا جائے۔ پاکستان اس وقت پانی کی قلت کا شکار ہے، اس کی سلامتی بھی خطرے میں ہے چنانچہ عید کی نماز کے بعد گڑ گڑا کر اللہ سے دعا کی جائے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور کفار پر غلبہ عطا فرمائے۔ امت مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں عید محکوماں کا منظر جگہ جگہ نظر آتا ہے جسے ہجوم مومنین کہا گیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمان 70 برس سے بھارتی ظلم کا شکار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ کوئی مددگار بھیج دے جو ظالموں سے نجات دلائے۔ روہنگیا مسلمان در بدر ہیں، فلسطین پر اسرائیل کا تسلط ہے اور فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ انہیں قبلہ اول بیت المقدس میں جاکر عبادت کرنے سے روکا جارہا ہے۔ عید تو انہوں نے بھی منائی لیکن یہ عید آزاداں نہیں جو باعث شکوہ ملک و دیں ہوتی ہے۔ شام کے مسلمان تین طرف سے مارے جارہے ہیں۔ افغانستان پر 17 برس سے امریکا مسلط ہے۔ ایک سازش کے تحت عرب ممالک کو لڑا کر ایک دوسرے کا خون بہایا جارہا ہے۔ عید آزاداں کہیں نظر نہیں آتی۔ آج کا دن مظلوم مسلمانوں کے لیے بہت گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے کا دن ہے، تفرقے دور کرنے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی توفیق مانگنے کا دن ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات ہورہے ہیں یہ دعا بھی کیجیے کہ اللہ ہمیں صالح حکمران عطا کرے، ایسے حکمران جو آپ کی رضا کے طالب ہوں اور شریعت کا نفاذ ان کا مطمح نظر ہو۔ ابھی توقعات کے ساتھ تمام قارئین کو عید مبارک ۔