ڈاکٹر نذیر زندہ ہے

242

ایک طوفان تھا اور۱۹۷۰ کے انتخابات میں بھٹو کا بخار تھا‘ اس وقت بھٹو کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کھمبے کو ٹکٹ دے گا تو کھمبا بھی جیت جائے گا‘ لیکن یہ پورا سچ نہیں تھا‘ پورا سچ یہ تھا کہ بھٹو نے کھمبوں کو ٹکٹ دیے اور جماعت اسلامی نے انسانوں کو ٹکٹ دیے‘ ان میں ایک انسان ڈاکٹر نذیر احمد بھی تھے‘ ڈیرہ غازی خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ۸۸‘ ڈیرہ غازی خان ون سے امیدوار تھے‘ ترازو ان کا نشان تھا اور سید مودودی کے نمائندے تھے‘ وہ سید مودودی جس نے ایک جماعت کی تشکیل کی اور پیغام یہ تھا یہ جماعت اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے‘ جو اس کا ساتھ دے اللہ سے اجر پائے گا اور جو روڑے اٹکائے وہ اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لے‘ ڈاکٹر نذیر احمد اس نظام کی حمائت میں اور سید مودودی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں اترے‘ اور عمل کی میزان میں تل کر لوگوں کے دلوں میں اتر گئے یوں جاگیر داروں‘ اور بڑے ناموں اور سرداروں کے مقابلے میں سید مودودی کے پیغام کی نسبت سے ملنے والے ووٹ کی قوت نے انہیں سرفراز کیا‘ وہ بھٹو جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک سیاسی طاقت ہے‘ نشہ ہے اور سیاست میں اس کا کوئی ثانی نہیں آج چھیالیس سال کے بعد سیاست کا یہ نشہ اتر چکا ہے‘ بھٹو کے نام کی تاریخ بدل گئی ہے‘ یوں کہہ لیں کہ اس ملک میں اب بھٹو کے نام کی سیاست کی کتاب کا ہر باب بند ہوچکا ہے‘ آج ملک میں ایک بار پھر انتخابات کا شور ہے‘ پیپلزپارٹی بھی میدان میں ہے اور جماعت اسلامی بھی‘ لیکن ایک تبدیلی ہے کہ ڈاکٹر نذیر احمد کے راستے کو اپنانے والے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد میدان سیاست میں موجود ہے لیکن بھٹو اور ان کے خاندان اور بھٹو کی نسل میں کوئی ایک بھی امیدوار آج کے انتخابات میں بطور امیدوار موجود نہیں ہے‘ بھٹو کے نواسے بلاول زرداری‘ امیدوار ہیں مگر انہیں ریٹرننگ آفیسر نے اپنے نام کے ساتھ لفظ بھٹو ہٹانے پر ہی انتخابی عمل میں شریک ہونے کی
اجازت دی ہے بلاول نے اپنے ہاتھ سے کاغذات نامزدگی پر لکھے ہوئے لفظ بھٹو کو مٹایا اور ہٹایا ہے‘ لیکن وہ جری انسان‘ ڈاکٹر نذیر احمد‘ جسے بھٹو کی فسطائیت کے زمانے میں‘ آٹھ جون ۱۹۷۲ کو اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے نا حق قتل کیا گیا‘ اس کا نام آج بھی زندہ ہے‘ متحدہ مجلس عمل کا ایک ایک امیدوار اپنی ذات میں ڈاکٹر نذیر احمد ہے‘ جس کا نعرہ مستانہ یہی ہے کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ کراچی سے لے کر خیبر تک‘ جماعت اسلامی کے امیدواروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جس نے‘ اچھرہ کی گلیوں سے ابھرتے ہوئے اس پیغام سے انحراف کیا ہو جو ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنایا تھا لیکن وہ پیغام جو بھٹو کے نام سے لاڑکانہ سے اٹھا تھا‘ اس کا آج کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے‘ سیاست میں جماعت اسلامی اور اس کے پیغام کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن یہ کامیابی کیسے آگے بڑھائی جاسکتی ہے اب یہی سوال‘ جماعت اسلامی کے ہر امیدوار سے بھی ہونا چاہیے‘ اور لازمی ہونا چاہیے کہ کیا وہ عظیم شخصیت ڈاکٹر نذیر احمد کا متبادل بننے کو تیار ہیں؟ جو پوری زندگی اس ملک کے بالا دست طبقوں کے ساتھ مظلوموں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے جاگیردارانہ یا فیوڈل سیاست کا خاتمہ انہی کے ہاتھوں ہوا‘ بلاشبہ اس ملک کی سیاست پر بھی ایک قرض ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام‘ ہمیں ایوب خان‘ ضیاء الحق‘ مشرف اور بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ نوازشریف اور عمران خان جیسے افراد تو دے رہا ہے لیکن اس ملک کا سیاسی نظام ایک بھی ڈاکٹر نذیر احمد نہیں دے سکا‘ ملک کے سیاسی نظام کی گردن پر یہ سوال رہے گا کہ وہ کیوں ان جیسا ایک بھی سیاسی کارکن پیدا نہیں کرسکا‘ جو خود کو مسلمان‘ پاکستانی سمجھتے تھے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں‘ اسلام ان کا نظریہ تھا‘ قرآن ان کا دستور تھا‘ پاکستان ان کے لیے ماں دھرتی تھی اور ان کی نسل آج بھی اسی پر قائم ہے۔ڈاکٹر نذیر احمد نے ظالم کی گولی اپنے سینے پر کھائی اور اپنے خون سے اس دھرتی کی پیاس بھجائی ہے‘ ان کی شخصیت بڑی وسیع اور ہمہ گیر تھی کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی انہوں نے اس دھرتی اور اس ملک کو بہت کچھ دیا،
ان کا عطا کر دہ سماجی و سیاسی شعور ایک پوری نسل کو متاثر کر چکا ہے آج حیات ہوتے تو ان کے آبائی علاقے کے حالات بھی مختلف ہوتے‘ یہاں کے کھوسے‘ دریشک‘ لغاری اور مزاری سب محکوم ہوتے اور اللہ کا نظام یہاں کا حاکم ہوتا‘ بلاشبہ وہ یہاں کے نظام کے مقابلے میں ایک تسلیم شدہ جرائت مند راہنما تھے جماعت اسلامی سے باہر بھی لوگ ان سے متاثر ہوئے اور ان کی قیادت کو تسلیم کرتے تھے باہر کی دنیا انہیں عزت و احترام کو اپنا وقار تصور کرتی تھی محروم طبقات کو تقویت دینے کے لیے اپنا ہر لمحہ صرف کرتے تھے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے اقلیتوں کے بھی ترجمان بن گئے تھے ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ وہ اُمت مسلمہ کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر تھے۔ وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے۔ وہ اتحادِ اُمت کے حقیقی معنوں میں علمبردار تھے وہ ظلم کے خلاف ایک توانا آواز تھے آج کوئی نہیں جس کی طرف اس طرح اُمید کی نگاہ سے دیکھا جائے ان کے انقلابی آفاقی نظریات کے مطابق استحصال سے پاک معاشرے اورچہروں کے بجائے نظام کی تبدیلی تک جہد مسلسل کا عزم جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عوام ہمارا ساتھ دیں تو ہم عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کریں گے امت مسلمہ اور پاکستان سے محبت ان خون میں شامل ہے وہ پاکستان کو ماڈل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے کشمیرکی آزادی کی تحریک کے وہ ایک نہائت بہادر اور نڈر سپاہی تھے مذہب و مسلک اور علاقائی تعصبات سے پاک پاکستان بنانا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ پنجاب ، پٹھان، سرائیکی، سندھی بلوچی اور اردو بولنے والوں میں تقسیم ہوکر اپنا قومی تشخص کھوتے جارہے ہیں۔ انہی تعصبات کی بنیاد پر آج دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرنے والوں نے فرقہ وارانہ اور قومیت کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کی جس کے لیے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے اور دوسروں پر ملبہ پھینکنے کی بجائے خود تعمیر وطن کرے۔