فوج کی نگرانی میں انتخابات سے بڑی جماعتوں کی کارکردگی کی قلعی کھل جائے گی

116

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کی صدارت میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فیصلے سے ملک بھر کے عوام میں اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے اور انہیں یقین ہونے لگا ہے کہ اس باریقینی طور پر شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونگے۔ چونکہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اور اندر فوج تعینات ہو گی جبکہ کوئیک رسپانس فورس کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی ،صوبوں کی طرف سے ہرممکن اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی، حساس اور انتہائی احساس پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں
ملک بھر کے 20 ہزار پولنگ اسٹیشنز کو حساس بھی قرار دیا گیا ہے۔انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جانے کی خبرسے جہاں عام ووٹرز میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے وہیں پر انتخابات میں حصہ لینے والی کراچی سمیت ملک بھر کی ان سیاسی جماعتوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے جو کسی بھی طرح دھاندلی کے منصوبے بنا رہی تھیں۔ لوگ کراچی میں طویل عرصے تک “ٹھپا مار الیکشن ” دیکھتے رہے اس لیے انہیں اس بار بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کی نگرانی میں” شفاف منصفانہ اور بلاخوف انتخابی ” عمل دیکھنے کا موقع ملے گا۔ فوج کی نگرانی میں انتخابات کے سخت فیصلے کے بعد بعض پارٹیاں اپنی شکست کے خدشے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہیں۔ اگر بائیکاٹ نہ کرسکیں تو ان کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کے فیصلے سے سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کو بھی تحفظات اور خدشات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نواز میں یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات کا مقصد مسلم لیگ نواز پر دباؤ ڈالنا ہے جبکہ ایسے ہی تاثرات پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی ہیں۔ عام افراد کا کہنا ہے کہ انتخابات ہمیشہ ہی فوج کی نگرانی میں آزادانہ ماحول میں منصفانہ کرائے جانے چاہییں تاکہ عوام جسے چاہیں اسے یا اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے سکیں۔ فوج کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد سے اگر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹیوں کے امیدواروں کی غیر معمولی تعداد کامیاب ہوئی تو تب بھی انتخابی عمل کو شکوک کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ لیکن لوگوں میں مقبولیت کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے دھاندلی اور خوف کی وجہ سے ناکام ہونے والی سیاسی جماعتیں یقیناًمطمئن اور پرامید ہیں کہ انہیں اس انتخابات میں زیادہ ووٹ ملیں گے اور ان کے نامزد کردہ امیدواروں کی اکثریت کامیاب ہوگی۔ خیال ہے کہ ایم ایم اے کراچی کے علاوہ کے پی کے پنجاب اور بلوچستان سے اس بار زیادہ ووٹ لیکر نمایاں پوزیشن پر آجائے گی۔ جبکہ ملک بھر سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ماضی کے مقابلے میں کم ووٹ ملیں گے اور ان کے امیدوار بھی ماضی کی طرح اپنی نشستیں نہیں نکال سکیں گے۔ ملک میں اس بار عام افراد کی رائے کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگی۔اگر ایسا ہوا تو حکومت کئی جماعتوں پر مشتمل اور کمزور ہوگی۔