فوج کی نگرانی میں انتخابات۔ نتائج کیا ہوں گے!

396

ویسے تو 2013ء کے عام انتخابات بھی فوج کی موجودگی میں ہوئے تھے لیکن ان انتخابات میں فوج کو وہ اختیارات شاید نہیں دیے گئے تو جو آئندہ انتخابات میں دیے جانے کی توقع ہے۔ خیال رہے کہ فوج کی موجودگی میں اور فوج کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد میں فرق ہے۔فوج کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ فوج انتخابی عمل میں ضرورت کے لیے موجود رہے گی۔ لیکن ملک میں 25 جولائی کو ہونے عام انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کی صدارت میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اس بار انتخابی عمل کے دوران فوج صرف موجود ہی نہیں رہے گی بلکہ پورے انتخابی عمل کی نگرانی بھی کرے گی ور ضرورت پڑنے پر اپنے اختیارات استعمال بھی کرے گی۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور اس فیصلے پر ملک بھر کے عوام اطمینان کا اظہار بھی کیا کررہے ہیں۔ قوم کو اس فیصلے سے یقین ہونے لگا ہے کہ اس بار انتخابات یقینی طور پر شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اور اندر فوج تعینات ہو گی جب کہ کوئیک رسپانس فورس کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی، صوبوں کی طرف سے ہرممکن اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی، حساس اور انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کیمرے نصب کرنے کاپابند ہوگاجب کہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ اور ترسیل فوج کی نگرانی میں ہو گی۔ ایڈیشنل الیکشن چیف کمشنر ندیم قاسم کا انتخابات کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 233 کے تحت سیکورٹی اہلکاروں کے لیے ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا گیا ہے، ضرورت پڑنے پر سیکورٹی کے حوالے سے نیکٹا سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، پریذائڈنگ آفسیرز کی عید کے بعد ٹریننگ شروع ہو گی، صوبائی حکومتوں کو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور پولنگ عملے کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی، پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں کی 45 ہزار لوکیشنز ہیں جہاں فوج موجود رہے گی۔
انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جانے کی خبر سے جہاں عام ووٹرز میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے وہیں پر انتخابات میں حصہ لینے والی کراچی سمیت ملک بھر کی ان سیاسی جماعتوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے جو کسی بھی طرح دھاندلی کے منصوبے بنارہی تھیں۔
چوں کہ کراچی کے لوگوں گزشتہ کم و بیش کئی سالوں سے ’’ٹھپہ مار الیکشن‘‘ دیکھتے رہے ہیں۔ بلکہ ایسے بھی الیکشن کرادیے گئے جہاں ووٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ووٹ امیدواروں نے ’’ڈنکے کی چوٹ ‘‘پر حاصل کیے اور الیکشن کمیشن نے انہیں تسلیم بھی کیا۔
لیکن شاید پہلی بار بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ لوگوں کو فوج کی نگرانی میں’’شفاف منصفانہ اور بلاخوف انتخابی‘‘ عمل دیکھنے کا موقع ملے گا۔ انتخابات یقیناًایک بہت اہم اور حساس معاملہ ہوتا ہے۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے دوران کسی بھی وقت کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر یا علاقے میں شرپسندی کی جاسکتی ہے۔ لیکن یقین ہے کہ ایسی کسی کارروائی کی روک تھام کے لیے بھی فوج تیاری کرے گی۔
فوج کی نگرانی میں سخت انتظامات کے فیصلے کے بعد بعض پارٹیاں اپنی شکست کے خدشے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہیں اس مقصد کے لیے کوئی بھی بہانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر بائیکاٹ نہ کرسکیں تو ان کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کے فیصلے سے سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کو بھی تحفظات اور خدشات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نواز میں یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات کا مقصد مسلم لیگ نواز پر دباؤ ڈالنا ہے اور اسے انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے۔ ایسے ہی تاثرات پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی ہیں۔ عام افراد کا کہنا ہے کہ انتخابات ہمیشہ ہی فوج کی نگرانی میں آزادانہ ماحول میں منصفانہ کرائے جانا چاہیے تاکہ عوام جسے چاہے اسے یا اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے سکیں۔
فوج کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد سے اگر اسٹبلشمنٹ کی پارٹیاں کہلانے والی یا بیان کی جانے والی پاکستان تحریک انصاف اور پاک سر زمین پارٹی کے امیدواروں کی غیر معمولی تعداد کامیاب ہوئی تو تب بھی انتخابی عمل کو شکوک کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ لیکن لوگوں میں مقبولیت کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے دھاندلی اور خوف کی وجہ سے ناکام ہونے والی سیاسی جماعتیں یقیناًمطمئن اور پرامید ہیں کہ انہیں اس مرتبہ زیادہ ووٹ ملیں گے اور ان کے نامزد کردہ امیدواروں کی اکثریت کامیاب ہوگی۔
خیال ہے کہ ایم ایم اے کراچی کے علاوہ کے پی کے پنجاب اور بلوچستان سے اس بار زیادہ ووٹس لے کر نمایاں پوزیشن پر آجائے گی۔ ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی کے متعدد امیدوار خصوصا کراچی سے اپنی نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جب کہ ملک بھر سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ماضی کے مقابلے میں کم ووٹ ملیں گے اور ان کے امیدوار بھی ماضی کی طرح اپنی نشستیں نہیں نکال سکیں گے۔
ملک میں اس بار عام افراد اور دانشوروں کی رائے کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت کئی جماعتوں پر مشتمل اور کمزور ہوگی۔
فوج کی نگرانی میں انتخابات ہونے سے عوام کو یقین ہے کہ آئندہ جیسی بھی جمہوری حکومت ہوگی وہ عوام کی اپنی منتخب کردہ ہوگی۔ ایسی حکومت کو 5سال گزارنے کے لیے اپنی خواہشات سے زیادہ عوام کی توقعات پر پورا اترتا پڑے گا۔ یہی بات اصلی جمہوریت کی کامیابی کہلائے گی۔