جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

330

جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
عدالت عظمیٰ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ معطل کر دیا ہے اور اْنہیں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی بھی اجازت دی ہے۔ خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سابق فوجی صدر کو 13 جون کو ذاتی حیثیت میں عدالت عظمیٰ کی لاہور رجسٹری برانچ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوں تو اْنہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ وہ فرد جس کو 2013 کے الیکشن کے موقعے پر پاکستان کی ہر ہائی کورٹ نے الیکشن میں حصہ نہ لینے اور نااہل قرار دیے جانے کا حکم دیا تھا، عدالت عظمیٰ نے ان تمام فیصلوں کو کالعدم کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کے ہر حلقے سے الیکشن لڑنے کی کھلی اجازت دیدی ہے بلکہ اس کی نااہلی کو بھی اہلیت میں بدل کر یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ سابق فوجی جنرل اور سابق صدر پرویز مشرف کوگرفتار نہ کیا جائے۔ اس حکم کو سامنے رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر کی وہ پریس کانفرنس اپنے سامنے رکھیں جس میں ترجمان پاک فوج، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ: 2018 تبدیلی کا سال ہے۔ اس وقت شاید اس بات کو بہت آسانی سے سمجھنا کچھ مشکل تھا اور یہ جاننا کہ ’’تبدیلی‘‘ سے ان کی کیا مراد تھی، لیکن چونکا دینے والی اس خبر نے اس بات کو کچھ کچھ ہی نہیں بہت کچھ واضح کردیا ہے کہ تبدیلی سے آخر مراد کیا ہے۔
ایک ایسا فرد جس پر کوئی معمولی نوعیت کا نہیں بہت سنگین نوعیت کا مقدمہ چل رہا ہو، عدالت نے اس مقدمے کو خارج بھی نہیں کیا ہو اور جو فرد اپنی بیماری کے عذر کی وجہ سے باہر گیا ہو اس پر لگائی جانے والی تاحیات نااہلیت کو اہلیت میں بدل دیا جائے اور گرفتاری کے احکامات واپس لے لیے جائیں، نہ صرف حیران کن خبر ہے بلکہ یہ اس بات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہماری عدالتیں اپنے سارے فیصلوں میں کہیں سے کہیں تک خود مختار نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ اب مستقبل کا منظرنامہ کیا بننے والا ہے اس کا اندازہ لگانا ہر عام و خاص کے لیے کوئی مشکل نہیں رہ گیا ہے۔ یہ رویے پاکستان کے حق میں اچھے جاتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بظاہر اس میں سود مندی کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دے رہا۔
تفصیل کے مطابق سابق فوجی صدر پرویز مشرف آئین شکنی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے سمیت چار مقدمات میں اشتہاری ہیں۔ مختلف عدالتوں نے ان مقدمات میں ملزم پرویز مشرف کی جائداد قرق کرنے کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پرویز مشرف کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کے وکیل قمر افضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان کے موکل پر انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق تاحیات پابندی عاید کرنے کے بارے میں جو فیصلہ دیا ہے اس میں حقائق کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ اْنہوں نے کہا کہ 2013 میں پشاور ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس وقت سابق فوجی صدر کسی مقدمے میں سزا یافتہ بھی نہیں تھے۔ قمر افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کسی شخص پر انتخابات میں حصہ لینے پر کیسے پابندی عائد کر سکتی ہے جب وہ کسی مقدمے میں سزا یافتہ بھی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر انتخابات میں تاحیات پابندی عائد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چوں کہ سابق فوجی صدر نے ملکی آئین کو توڑا ہے اس لیے اْن پر تاحیات پابندی عائد کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل سے کہیں کہ وہ جون کو عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی کی منظوری ان کی عدالت میں پیشی سے مشروط ہے۔ پرویز مشرف کے وکیل نے اپنے موکل کے عدالت میں پیش ہونے کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔ واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ملزم پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کے احکامات دیے تھے۔
سابق فوجی صدر کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ یہ پرویز مشرف کون ہیں جس پر بتایا گیا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان کے صدر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 1999 میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اعلیٰ عدلیہ کے جن ججوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اْٹھایا تھا ان میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی شامل تھے۔ سابق فوجی صدر پر انتخابات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی کا فیصلہ صوبہ خیبر پختون خوا کے نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد نے بطور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دیا تھا۔ جب صورت حال یہ ہو کہ جب چاہا جاری کیے گئے فیصلے واپس لیے جا سکتے ہوں اور جب چاہے فیصلے پتھر کی لکیر بن جائیں تو ایسے عالم میں کسی بھی فیصلے کا کیا اعتبار رہ جاتا ہے۔ وہ فرد جس پر آئین توڑنے جیسے سنگین جرم پر معافی جیسا نرم رویہ اختیار کیا جاسکتا ہو اور کسی کا محض اپنے بیٹے کی فرم سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تاقیامت پابندیاں عائد کردی جائیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
2013 اور 2018 میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔ قانون اور آئین اس وقت بھی یہی تھا جو آج ہے اور پاکستان میں عدالتیں بھی یہی تھیں جو آج ہیں اگر فرق تھا تو حکومت کا جو آج کی طرح عبوری تھی یا عدالتوں پر متمکن منصفین کا جو کوئی اور تھے۔ اس بات کو سامنے رکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاکستان کا آئین، اور قانون اپنی جگہ لیکن آئین اور قانون سے برتر جو چیز ہے یا جن کے سامنے آئین اور قانون ہیچ ہوجایا کرتا ہے وہ یا تو منصفین کی اپنی اپنی رائے اور مرضی ہوتی ہے یا پھر ان کی مجبوریاں۔ اگر یہ صورت حال ہے تو پھر کسی بھی آئین یا اصول کو توڑنے والے کو کس طرح گرفت میں لیا جاسکتا ہے؟۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر کسی امتیاز کے بغیر ہر پاکستانی کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ایک عام آدمی یا فرد اگر ٹریفک کے قوانین کی بھی ذرہ برابر خلاف ورزی کرتا ہے تو ایک معمولی کانسٹیبل بھی اس کا چالان کاٹ سکتا ہے تو آئین توڑنے جیسی خلاف ورزی کو قابل معافی بنادیا جائے گا تو آنے والے مستقبل کے لیے ایسی سنگین خلاف ورزی پر کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی کو کس طرح ممکن بنایا جاسکے گا؟۔ اس قسم کے فیصلوں کو آسان نہ لیا جائے اور بہتر تو یہی ہے کہ فیصلے پر نظر ثانی کی جائے یا پھر ضروری ہے کہ سب کو ہموار میدان فراہم کیا جائے تاکہ دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ پاکستان میں انصاف ہی کے نہیں، ہر معاملے میں دہرے معیارات ہیں۔ دہرے معیارات ذہنی الجھنوں، پریشانیوں اور محرومیوں کو جنم دیں گے اور اس کے نتائچ کسی بھی سطح پر قوم اور ملک کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ پرویز مشرف کے فیصلے پر دوبارہ غور کیا جائے گا اور ملک میں موجود سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیمیں لازماً آواز بلند کریں گی تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ وہ جو کچھ پرویز مشرف کی مخالفت میں قوم کے سامنے بیانات دیتی رہی ہیں وہ ڈراما نہیں تھے بلکہ وہ بیانات حقائق پر مبنی تھے۔ عدالت کا یہ فیصلہ اب ان کے لیے ایک چیلنج ہے جس کا ردعمل قوم کے سامنے ضرور آنا چاہیے۔