یہ اطلاع بھی ہمیں امریکا نے دی کہ تحریک طالبان پاکستان کا افغانستان میں مقیم سربراہ فضل اللہ امریکا کے ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ فضل اللہ پاکستان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث تھا جن میں حساس تنصیبات اور اسٹرٹیجک اثاثوں پر حملے بھی شامل تھے تاہم اس شخص کے دامن پر سب سے سنگین اور رنگین دھبہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے لہو تھا جو تین برس قبل نہایت بے دردی سے شہید کیے گئے تھے۔ اس واقعے نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور قوم کئی روز تک مسلسل سکتے کی کیفیت میں رہی تھی۔ ہر شخص کی زبان گنگ ہو گئی تھی بولنے والوں کے پاس کہنے کو کچھ تھا نہ لکھنے والوں کے پاس لکھنے کو کوئی بات۔ اس حملے کی کڑیاں افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں سے ملی تھیں اسی لیے جنرل راحیل شریف دوسرے ہی روز تمام ثبوت لے کر کابل کے حکمرانوں اور امریکی جرنیلوں کے پاس پہنچے تھے اور انہیں قاتلوں کے خلاف کارروائی کا کہا تھا۔ اس وقت فضل اللہ امریکا کے لیے اچھا طالبان تھا کیوں کہ وہ اسے پاکستان پر ایک دباؤ کے ایک لیوریج کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا یہی وجہ ہے کہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
پاکستان نے اس سانحے کے بعد ہی آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر کے دہشت گردوں پر فیصلہ کن وار کیا تھا اور بھرپور زمینی اور فضائی قوت استعمال کرکے اپنی سرزمین کو بڑی حد تک دہشت گردوں سے پاک کر دیا تھا مگر افغانستان میں دہشت گردوں کی کمیں گاہیں اور ان میں چھپے دہشت گرد پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے مسلسل چیلنج کھڑے کرتے رہے۔ وقت بدل گیا اور امریکا کو افغانستان میں ناکامیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ پاکستان ہر فورم پر افغان مسئلے کے حل پر آمادگی کا اظہارکرتے ہوئے اپنے دو تحفظات کا برملا اظہار کرتا رہا۔ ان میں پہلا نکتہ تحریک طالبان کے لوگوں کی افغان سرزمین پر سرپرستی اور دوسرا افغانستان میں بھارت کا غیر معمولی اثر رسوخ تھا۔ ان معاملات کو سلجھائے بغیر پاکستان افغانستان میں امن عمل میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ اب امریکیوں کو اس تلخ اور ناگوار حقیقت کا احساس ہوگیا تو انہوں نے پس پردہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی حکمت عملی اختیار کر لی۔ اس سال مارچ میں امریکا نے ’’اچھے طالب‘‘ فضل اللہ کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر مقرر کی جب کہ پاکستان کو مطلوب منگل باغ اور عبدالولی کے سروں کی قیمت تیس تیس لاکھ مقرر کی۔ جس سے پاکستان اور امریکا کے درمیان افغان مسئلے پر مفاہمت کے آثار ملنا شروع ہو گئے تھے۔ جواب میں پاک فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا افغانستان سے کامیاب ہو کر نکلے۔ ان مفاہمانہ پیغامات کے بعد ہی طالبان میں عید الفطر پر افغانستان میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے بھی طالبان کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔ افغان فوجی اور طالبان شیر وشکر ہو کر سلفیاں بنواتے رہے۔ اس دوران امریکا نے ڈرون حملہ کرکے فضل اللہ کو ہلاک کر دیا۔ یوں پاکستان کی طرف شاخ زیتون اُچھال دی گئی۔ یہ پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں ہونے والی مفاہمت کا پتا دی رہی ہے مگر ابھی اس سمت میں لمبا سفر باقی ہے۔
ماضی کی کدورتیں، دوریاں اور نفرتیں جو پہاڑ کی شکل اختیار کر گئی ہیں اب انہیں سر کرنا آسان نہیں رہا۔ کچھ لو اور کچھ دو کا یہ کھیل پہلو بہ پہلو جاری رہے گا۔ فضل اللہ کی ہلاکت ان سب اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے لیے ایک سبق ہے جو غیروں کے مفادات کی ڈگڈگی پر رقص کرتے ہیں۔ یہ ان حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے جو غیروں کی جبینوں کی شکنیں دور کرنے اور ان کا مزاج خوش گوار بنانے کی خاطر اپنے معاشرے سے برسرِجنگ ہوتے ہیں۔ نوچ نوچ کر اپنا چہرہ اور حلیہ بگاڑ لیتے ہیں مگر وقت آنے پر وہ غیر ان سے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ ان کا ٹیلی فون سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ رضا شاہ پہلوی اس توتا چشمی کے جیتا جاگتا ثبوت تھے جنہیں جلاوطنی کے بعد دفن کے لیے دوگز زمیں تک نہیں دی گئی تھی۔ ریاستوں کی دوستی اور دشمنی کے منجمد اصول اور پیمانے نہیں ہوتے۔ جب ان کی پالیسی بدل جائے تو محبوب سے معتوب بنتے لمحوں کی دیر نہیں لگتی۔ فضل اللہ جب تک امریکا کے مفادات کے لیے اہم تھا اسے پاکستان کی اپیلوں کے باجود نشانہ نہیں بنایا گیا جب امریکا کو اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کے تعاون اور اسے خوش کرنے کے لیے فضل اللہ کی قربانی دینا پڑی تو اس نے اپنے اثاثے کو بوجھ بنا کر پٹخ دیا۔ اس سبق کی روشنی میں یہ طے ہے کہ بری ہو یا بھلی اپنی ہی ریاست اچھی ہے۔ یہ وعدہ خلافی کرے تو اس پر وعدہ شکنی کا الزام تو لگایا جا سکتا ہے۔ اسے بے وفائی کا طعنہ تو دیا جا سکتا ہے۔ اس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم کا مقدمہ تو لڑا جا سکتا ہے مگر بیرونی ریاست سے تو گلہ اور شکوہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بیرونی ریاستوں کے مفادات کا ایندھن بننے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی معاون ریاست کسی بھی لمحے یوٹرن لے کر انہیں تاریخ اور حالات کے حوالے کر کے رخ اور مُکھ موڑ سکتی ہے۔ پھر کھلے آسمان تلے وہ ہوتے ہیں یا ان کی تنہائی اور پرچھائی ہوتی ہے۔