طرزِ زندگی اور ہماری صحت

321

نذیر الحسن

صحت کے مختلف زاویے ہیں۔جب انسانی صحت و تندرستی کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطب صرف جسمانی صحت نہیں ہوتا بلکہ اس کی اور بھی جہتیں ہیں، جیسے ذہنی، نفسیاتی، اعصابی، دماغی اور روحانی۔ صحت مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان دائروں میںبھی صحت مند ہو۔ ایک فرد بظاہر تندرست نظر آرہا ہو مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ذہنی یا نفسیاتی اعتبار سے بیمار ہو۔ مختلف دائروں پر محیط انسانی صحت کا دار ومدار طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل سے وابستہ ہے۔ آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں مغربی طرزِ زندگی سرعت کے ساتھ اپنا اثرونفوذ بڑھا رہا ہے۔ مغربی لائف اسٹائل تیسری دنیا میں بھی درآیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ تمام امراض ہمارے معاشرے میں بھی پھیل رہے ہیں جو مغربی معاشرے میں اپنے مضر اثرات دکھا چکے ہیں۔
مغربی دنیا کے لائف اسٹائل نے وہاں صحت کے جو مسائل پیدا کیے ہیں ان میں مٹاپا، اینگزائٹی، ہائپر ٹینشن اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔ مغربی طرزِ زندگی جہاں ہمارے معاشرے میں داخل ہوا ہے، وہیں صحت کے ان گنت مسائل نے بھی ساتھ ہی جنم لیا ہے۔ اسی طرز زندگی کی وجہ سے مغربی ممالک میں مٹاپا ایک وبا کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اورالمیہ ہے کہ اعداد شمار یہ بتاتے ہیں کہ مٹاپے پر قابو پانے کے لیے کچھ ممالک میں اتنا خرچ کیا جارہا ہے جتنا بعض ملکوں کا بجٹ بھی نہیں۔تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹربیماریوں کا جو علاج بتاتے یا مشورہ دیتے ہیں وہ وہی ہیں جو صحت کے باب میں اسلام کی تعلیمات ہیں۔ صرف غذا اور نیند کے حوالے سے اسلام نے جو احکامات دیے ہیں اگر اسی پر عمل کیا جائے تو صحت کے بہت سے مسائل ازخود حل ہو جائیں۔
دنیا نے معیار زندگی کی بہتری کے لیے Human Development Index (HDI) بنایا تھا مگر اب دنیا Happy Planet Index کے ذریعے یہ بات معلوم کرنا چاہ رہی ہے کہ لوگ خوش کتنے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ صحت و تندرستی کے حوالے سے جملہ کوششوں کااصل ثمرہی یہ ہے کہ انسان کتنا آسودہ ہے یااسے کتنا ذہنی سکون حاصل ہے۔
ہم نے صحت اور اس سے متعلق جن دائروں کا ذکر کیا ہے ان سب کی صحت کا تعلق طرزِ زندگی کے ساتھ اس اہم نکتے سے بھی ہے کہ ہماری غذاکیا ہے؟ہم کن چیزوں کوintake کر رہے ہیں۔ قدرت نے انسان کے اندر انٹیک کا نظام بنایا ہے اور یہ جسمانی صحت کے علاوہ اعصاب ،نفسیات ،روح اور اعمال و کردار میںاثر دکھاتا ہے۔ہماری صحت کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ہماری انٹیک کیا ہے۔اس انٹیک میں جو کچھ ہم کھا اور پی رہے ہیں اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہم دیکھ اور سن رہے ہیں اور جن خیالات کو عقل و شعور کی منزل سے گزارتے ہیں وہ انٹیک بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی فلٹر(چھلنی) نہیں لگایاگیاتو صرف طبی ہی نہیں اخلاقی اعتبار سے انتشار و فساد جنم لے گا۔ صحت کو درست رکھنے کے لیے انٹیک پرچھلنی لگانا ناگزیر ہے۔
آج انسان جن دائروں میں جدوجہد کر رہا ہے اس کی غرض و غایت اس کے سوا کیا ہے کہ اسے خوشی،کامیابی اور آسودگی حاصل ہو، مگر یہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان اپنی زندگی کو فطرت کے اصولوں اوراسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہ کرے۔ اپنے طرزِ ندگی کو نہ بدلے اور اپنی تمام انٹیک پر چھلنی نہ لگائے۔
قدرت نے انسان کے اندر انٹیک کا نظام بنایا ہے اور یہ جسمانی صحت کے علاوہ اعصاب ،نفسیات ،روح اور اعمال و کردار میںاثر دکھاتا ہے۔ہماری صحت کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ہماری انٹیک کیا ہے۔اس انٹیک میں جو کچھ ہم کھا اور پی رہے ہیں اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہم دیکھ اور سن رہے ہیں اور جن خیالات کو عقل و شعور کی منزل سے گزارتے ہیں وہ انٹیک بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی فلٹر(چھلنی) نہیں لگایاگیاتو صرف طبی ہی نہیں اخلاقی اعتبار سے انتشار
ا ور فساد جنم لے گا۔ صحت کو درست رکھنے کے لیے انٹیک پرچھلنی لگانا ناگزیر ہے۔