کچھ علاج اس کا بھی…!

281

سندھ کے دیہات میں کم علمی اور جہالت سے پروان چڑھنے والے امراض کے حوالے سے ایک چشم کشا تحریر

ڈاکٹر خالد مشتاق
سائیںکھانسی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لیں،الٹا ہاتھ پیچھے کی طرف سے یا کھانستے ہوئے کپڑا منہ پر رکھ لیں۔
صاحب ! یہ باتیں تم کیا بتاتے ہو، ہم جنگلی ہیں،یہ بچہ بھی جنگلی ہے۔ یہ کیا سیکھے گا۔ بچے کے ساتھ آئے ہوئے فرد نے کہا۔
بچے کی عمر 10 سال تھی۔ اسے شدید کھانسی ہو رہی تھی وہ ڈاکٹر کی طرف منہ کر کے مسلسل کھانس رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ تم دوسری طرف دیکھو میں چیک اپ کرتا ہوں۔اس کی پیٹھ اپنی طرف کی تو اس نے دوسرے مریضوں کی طرف منہ کر کے کھانسنا شروع کر دیا۔ بچے کو بتانے کی کوشش کی تو بچے کے ساتھ آئے ہوئے فرد نے، جس کی عمر تقریباً 40 سال تھی، بتایا کہ جنگلی ہیں۔ میں نے اُس سے پوچھا ،آپ بچے کے کیا ہیں؟ اُس نے بتایا کہ میں اِس کا باپ ہوں۔ اُس سے پوچھا ،بچہ اسکول جاتا ہے؟ اُس نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ دوا دو۔ یہ جنگلی بچے ہیں ،ہم جنگلی ہیں۔ کونسا اسکول۔ ہماری طرف کوئی اسکول نہیں۔ہمارے باپ دادا نے کبھی اسکول نہیں دیکھا، تو ہمارا بیٹا کیا پڑھے گا۔ اسکول شہر میں ہوتے ہیں،ہم جنگل میں رہتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر جلدی کرو۔ اور بچے بھی بیمار ہیں۔ اِس آدمی کے اور بچے بھی بیمارتھے۔ سب کو کھانسی کا مسئلہ تھا۔ کھانسی کے ساتھ بخار تھا۔ ایک بچہ بیمار ہوا، پھر دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھا۔ اِس کے چھوٹے بچے کی عمر ایک سال تھی،جو ماں کا دودھ پی رہا تھا۔ اِسکا دوسرا بچہ3 سال کا تھا پھر2 اور تھے۔ ان سب کا چیک اپ کر لیا تو میں نے کہا کہ ایک بچے کو کھانسی تھی۔ اگر تم کھانسنے میں احتیاط کروا لیتے تو سب بچے بیمار نہ ہوتے۔ اس نے کہا ہم جنگلی ہیں۔ اسپتال کس لیے ہے حکومت کا ہے۔ ہمارے سائیں نے کہا تھا، اسپتال چلے جائو۔ سائیں سے مراد وہاں کا وڈیرہ ہوتا ہے۔ اس وڈیرے کے بچے سجاول کے قریب اسکول میں اور کچھ ٹھٹھہ کے آرمی پبلک اسکول میں پڑھتے ہیں۔ لیکن سمندر کے قریب رہنے والے اِن افراد کو اتنا زیادہ ظلم کی چکی میں پیسا گیاہے کہ یہ خود کو جنگلی ہی سمجھتے ہیں۔ اِس کی بیوی نے ہماری نرس کو بتایا کہ میرے 2 ۔3 بچوں کے کان بھی خراب ہیں۔ چھوٹا بچہ بھی بار بار کان کھجا رہا تھا۔ میں نے اپنے اسپتال کی (ماں کا دودھ پلانے کی تربیت دینے والی) انچارج سے کہاکہ اسے سمجھائو۔ وہ اُسے اپنے کمرے میں لے گئی۔ اُس نے آ کر بتایا کہ اس نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن سر یہ تربیت تو ہم پہلی مرتبہ ماں بننے والی خاتون کو دیتے ہیں۔ یا اُس کے بعد ۔یہ ماں کہہ رہی ہے، اس کے 11، 12 بچے ہیں۔ کہتی ہے تم مجھے دودھ پلانے کا کیا سمجھا رہی ہو۔ یہ بات سننے پر راضی ہی نہیں، یہ کہتی ہے میری ہڈیوں میں ہر وقت درد رہتا ہے۔ میں اس سے پریشان رہتی ہوں۔ میں بیٹھ کر دودھ نہیں پلا سکتی۔ لیٹ کر ہی پلائوںگی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ماں لیٹ کر دودھ پلائے تو بچے کے کان سے آنے والی نالی میں دودھ چلا جاتا ہے اور کان بہتا رہتا ہے۔ ماں نے بتایاکہ اُس کا بڑا بچہ جوان ہے۔ اِس کی شادی 15 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس کے ہاں 13 مرتبہ حمل ضایع ہوا۔ وہ بہت کمزور، ہڈی کا ڈھانچہ تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ شادی کے 17، 18 سال میں 13 بچے۔ اس لیے ماں کی صحت کا برا حال تھا اور اِس میں کیلشیم کی شدید کمی تھی۔ خون کی کمی بھی تھی۔ لیکن باپ کو اِس کی پروا نہیں تھی۔ وہ اِس نفسیاتی کیفیت میں تھے کہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے بھی کوئی فائدہ کی بات نہیں سن سکتے اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے۔
بس جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ اس معاشرے میں یہ ایک گھرانے کا حال نہیں بلکہ یہ نفسیاتی کیفیت دیہات میں رہنے والے ہزاروں گھرانوں کی ہے۔ جہاں ماں باپ خود کو ’جنگلی‘ اور اپنی اولاد کو بھی جانوروں جیسا ہی سمجھتے ہیں۔
وہ اپنے بچے کے فائدے یا مستقبل کے لیے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اِس نفسیاتی کیفیت میں موجود معاشرے کے لوگ جو کہ اپنے بچوں کے نام نہ بتا سکیں، وہاں بچوں میں احساسِ کمتری، ڈر خوف اور عدمِ تحفظ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی توجہ سے محروم یہ بچے اکثر نارمل رویّوں کے حامل نہیں ہوتے۔
لیکن ماں باپ جس طرح سائیں ( وڈیرے) کے غلام بن کر رہتے ہیں اورغلامی سیکھ لیتے ہیں۔ سائیں کی بات، اُس کے بچوں کی بات ٹھیک ہے۔ اُنہیں اسکول جانے، صحت مند رہنے، صاف ستھرے گھروں میں رہنے کا حق ہے۔ہم اُن کی خدمت کے لیے ہیں۔ اس نفسیاتی کیفیت میں یہ بچے ڈر، خوف کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی اس نفسیاتی کیفیت میں رہنے سے جہاں دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہے۔ کون کون سی نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں وہ تو ماہرینِ نفسیات زیادہ جانتے ہیں۔
میںنے اندرونِ سندھ بے شمار ایسے مریض دیکھے ہیں جن میں خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ اینگزائٹی کی یہاں عام شکایت ہے۔ ضلع سجاول کے ایک ساحلی شہر میں میڈیکل اسٹورز کا سروے کیا تو پتا چلا کہ اینگزائٹی کی دوائیں پریشانی کی دوا کے نام سے ملتی ہیں اور بلیک میں ملتی ہیں۔ میڈیکل اسٹور والوں نے بتایا کہ دیہاتی ، شہری سب استعمال کرتے ہیں۔ ڈپریشن کی دوائیں ہر وقت شارٹ رہتی ہیں۔
میںنے محکمہ صحت کے ایک ڈاکٹر کے طور پر الیکشن میں پریزائیڈنگ آفیسرکا کام کیاہے ۔ سیاست میں بہت سے لوگ سرگرم دیکھے،میں سوچ رہا تھا کہ اپنے آپ کو جنگلی سمجھنے والے، ذہنی پریشانی میں مبتلایہ افراد کیا سوچ کر سائیں کو ووٹ ڈالیں گے۔ یہی سائیں انہیں جنگلی بنا کر نفسیاتی طور پر پریشان رکھتا ہے۔ اِن مریضوں کا بھی ایک ووٹ ہوتا ہے اور ماہرِ نفسیات، نیورولوجسٹ، سائیکیٹرسٹ، ڈاکٹر کا بھی ایک ووٹ۔۔۔
Preventive Psychiatry کے ماہرین کو ان Potential مریضوں کو بچانے کے لیے محنت کرنا ہو گی ورنہ یہی ہوگا کہ یہ ماہرین علاج کرتے رہیں گے اور ہزاروں نئے مریض بنتے رہیں گے۔
تمام دردِ دل رکھنے والے ڈاکٹرز، سائیکالوجسٹ ، ماہر سائیکیٹرسٹ، نیورولوجسٹ کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اپیل ہے۔