افغانستان کا داخلی استحکام

395

افغانستان میں قومی و ملی استقلال کی جنگ ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ جسے آزادی و حریت کی تحریکوں کا مطالعہ و مشاہدہ کا شوق ہو وہ عالمی طاقتوں اور جدید ترین جنگی و حربی اوزاروں کے مقابل حریت و حمیت کے پیکر افغانوں کی طرف دیکھیں کہ جنہوں نے جنگ آزادی کی ایک نئی اور ولولہ انگیز تاریخ رقم کردی ہے۔ قابض امریکا سترہ سال سے انہیں مات دینے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرچکا ہے، مگر مزاحمت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ سامراجی ہدایت اور حکم پر گمراہ افغان علماء مختلف فورموں پرگویا امریکی قبضے کو جائز و مباح قرار دیتے ہیں۔ افغانستان کے روشن فکر حلقے تو پہلے ہی خوئے غلامی اپنا چکے ہیں۔ یہ بات یاد ر کھنے کی ہے کہ انگریز استعمار کے خلاف مزاحت کا نقارہ افغانستان کے گُنبد و مینار اور حجروں سے بجا تھا۔ جس کی صدا روسیوں کے خلاف بھی گونجی۔ اور امروز افغان امریکی قبضے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں موجود امریکی فوجی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ امارات اسلامیہ پر طاقت کا استعمال تو کررہے ہیں، سیاسی دباؤ بڑھانے کی سعی کررہے ہیں مگر اس کے ساتھ ان کے خلاف مذہب یعنی مذہبی حلقوں کی تبلیغ اور فتوؤں کی معاونت بھی حاصل کررہے ہیں۔ چناں چہ اس حکمت عملی کے تحت درباری علماء و مشائخ مسلسل اس مزاحمت کو ناروا باور کرانے کی سعی کررہے ہیں!۔ اس منش کے علماء 4جون کو کابل کے لویہ جرگہ ٹینٹ میں اکٹھے کرلیے گئے تھے۔ فتویٰ جاری کیا کہ ’’افغانستان میں جنگ کی کوئی بنیادی وجہ نہیں۔ اس جنگ کی نہ کوئی مذہبی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ قومی اور انسانی مفاد میں ہے۔‘‘ اس اجتماع کے اختتام پر خودکش بم دھماکا بھی ہوا جس کی حمایت ہرگز نہیں کرتے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ علماء محض اتنا ہی کہتے کہ قابضین بھی افغانستان سے نکلنے کی تیاری کریں۔ کیوں کہ اس جنگ کی بنیادی وجہ امریکی قبضہ ہے۔ پھر جنگ کی بنیادی وجہ کیسے نہیں ہے؟۔ امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا ہے اس جارحیت کے نتیجے میں لاکھوں افغان پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ اور افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومتی و انتظامی مشنری مسلط کردی۔ امریکا اچھی طرح جان چکا ہے کہ اس کے سامراجی منصوبوں کے آگے افغانوں کا جذبہ دین و آزادی آہنی دیوار کی مانند کھڑا ہے، جس کے خلاف مذہبی طبقے کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہِ و دمن سے نکال دو
مگر افغانیوں کے جذبہ دین و و قومی وقار کو عروج ہی ملا ہے۔ دھرتی پرجب تک ان خاک نشینوں کا وجود رہے گا حریت کا افتخار افغانوں کے ماتھے کا جھومر ہی رہے گا۔
11مئی 2018ء کو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں افغانستان، پاکستان اور انڈونیشیا کے علماء کی کانفرنس میں بھی امریکیوں اور ان کے افغان کاسہ لیسوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ افغانستان بارے علماء کی اس کانفرنس کا مقصد ایک مشترکہ فتویٰ جاری کرنا تھا۔ وہاں پاکستان سے گئے علماء کا مؤقف زمینی حقائق کے مطابق رہا، یعنی اُلٹا امریکی قبضہ و موجودگی کو جائز نہ سمجھا گیا۔ البتہ شہریوں کے جان و مال کے نقصان اور تنازع کے پرامن حل کے حوالے سے سفارشات سامنے لائی گئیں۔ کانفرنس میں علماء کی جانب سے فتویٰ جاری نہ کرنا امریکی جارحیت پر دلالت کرتا ہے۔ رہی بات افغان فوج اور پولیس کی تو ان کی تنظیم و تربیت کا مقصد ہی کٹھ پتلی افغان حکومت اور امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ گلبدین حکمت یار نے کہا تھا کہ افغان فورسز امریکی افواج کی ڈھال کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ سر دست امارت اسلامیہ نے اپنا بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ان کا اولین مطالبہ قابض افواج کا افغانستان سے انخلا کا ہے۔ انڈونیشیا کانفرنس میں یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے علماء نے امارت اسلامیہ سے مزاحمت روک دینے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ افغانستان میں امن امریکی قبضے سے مشروط ہے۔ امریکا نکلتا ہے تو امن کا قیام یقینی بن جائے گا۔ افغانستان پر مسلط حکومتیں سرے سے بے اختیار ہیں اپنی رائے اور تحفظات کا اظہار کریں گی تو بے دخل کردی جائیں گی اور نشان عبرت بن جائیں گی۔ ماضی میں روس اپنے کئی کاسہ لیسوں کو انجام تک پہنچا چکا ہے۔ 1973ء میں سردار داؤد نے ظاہر شاہ سے اقتدار چھینا تو کمیونسٹوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ روسی حکومت اور وہاں کے ذرائع ابلاغ نے داؤد کی آمد پر گرم جوشی کا اظہار کیا۔ روسی اور افغان کمیونسٹ اسے کامریڈ داؤد کہہ کر پکارتے۔ مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ نے تب کہا تھا کہ: ’’داؤد روس کا پکا دوست ہے۔ وہ افغانستان میں کمیونسٹ تحریک کو استحکام دینا چاہتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نجیب نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ: ’’پاکستان کے خلاف جنگ کے عزم کا اظہار جیسے اقدامات داؤد کی ترقی پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘ سردار داؤد پرچمیوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئے۔ رفتہ رفتہ سردار داؤد نے ایک افغان کی حیثیت سے ترجیحات بدلنا شروع کردیں۔ پاکستان، مشرق وسطیٰ اور دوسرے اسلامی ممالک کے دورے کیے ان کے وزیر تجارت محمد خان ہمراہ ہوتے۔ یہ شخص ان کی مخبری پر مامور تھا۔ داؤد کی کابینہ میں اور بھی کمیونسٹ شامل تھے۔ کمیونسٹوں کو داؤد کے عزائم کا پتا چل چکا تھا۔ داؤد نے پیش بندی کے طور پر کمیونسٹوں پر ہاتھ ڈالا مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ یوں خود مختاری کی سزا خاندان سمیت بھیانک موت کی صورت میں دی گئی۔ غرض افغانستان میں امن کے قیام کے لیے بات چیت کا در کھلا ہونا چاہیے۔ افغان کٹھ پتلی حکمرانوں سے بھی مذاکرات ہوں، مگر ان کا با اختیار ہونا ایک اہم سوال ہے۔ امارت اسلامیہ درست سمجھتی ہے کہ جس نے ان کی حکومت ختم کی ہے اور جو جنگ کے ذریعے افغانستان پر قابض ہوئے ہیں سے مذاکرات ہوں تاکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے۔ افغان درباری علماء بھی بنگال کے میر جعفر جیسے لوگ ’’خرِ لارڈ کلائیوں‘‘ کہتے تھے اور دکن کے میرصادق کے کردار کے بجائے ملت کی ترجمانی کا حق ادا کرے۔ ذاتی نفع اور باطل کی مدد چھوڑ کر ملک و عوام کی آزادی و خود مختاری کا نعرہ بلند کریں۔ دنیا یہ حقیقت تسلیم کرے کہ قابض افواج کی موجودگی میں افغانستان کی داخلی اور سیاسی استحکام ممکن نہیں!