جنرل درانی اور سقوط اسلام آباد

983

کیا ایک عام پاکستانی خواب و خیال میں بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ بھارت میں ممبئی حملوں جیسا کوئی واقعہ ہوگیا ہے اور کوئی پاکستانی بھارت سے کہہ رہا ہے کہ تم اس حادثے کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر حملہ کر دو‘ اس پر بم گرا دو یا اس کے خلاف بدنام زمانہ Surgical Strickes سے دل بہلا لو؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی معمولی معمولی پاکستانی بھی ممبئی حملے یا پٹھان کوٹ حملے جیسے واقعات کی صورت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھارت کے سامنے حملے کے لیے پیش نہیں کرسکتا۔ مگر آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت کے ساتھ ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے عنوان کے تحت جو کتاب تحریر کی ہے اس میں یہی کہا گیا ہے۔ جنرل درانی نے کہا ہے کہ ممبئی حملوں جیسی واردات ہوگئی تو پاکستان اور بھارت کے فہم رکھنے والے لوگ اپنے اپنے بیک چینل سے کہیں گے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔ چناں چہ جنرل اسد درانی اور امر جیت سنگھ دولت دونوں مشورہ کریں گے اور کہیں گے کہ ٹھیک ہے ممبئی حملوں جیسے واقعات کے بعد بھارت کی مجبوری ہے چناں چہ وہ پاکستان میں تین‘ چار مقامات پر حملے کرے گا‘ بم گرائے گا مگر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کے حملوں سے زیادہ نقصان نہ ہونے پائے۔ ظاہر ہے پاکستان کی ’’سیاسی مجبوری‘‘ اسے مجبور کرے گی کہ وہ بھارت کے حملوں کا جواب دے چناں چہ طے شدہ معاملے کے تحت پاکستان بھی بھارت میں بم گرائے گا۔ اس فرق کے ساتھ کہ بھارت نے دس بم گرائے ہوں گے تو پاکستان ایک بم گرائے گا۔ ان ممکنہ حملوں کو جنرل درانی نے Choreographed Surgical Strike کا نام دیا ہے۔ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 24)
سرجیکل اسٹرائیکس یا کوریو گرافڈ سرجیکل اسٹرائیکس کے حوالے سے آپ نے جنرل اسد درانی کے خیالات ملاحظہ کر لیے یہاں سوال یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ بھارت میں ممبئی حملوں یا پٹھان کوٹ حملے جیسے واقعات ہوتے ہیں تو ان کا ریاست پاکستان اور پاکستانی قوم سے کوئی تعلق نہ ہوگا بلکہ یہ حملے غیر ریاستی عناصر یا نان اسٹیٹ ایکٹرز نے کیے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھارت کو پاکستان پر کسی بھی طرح کے حملے کا کیا حق حاصل ہوگا؟ یہ تو کرے کوئی بھرے کوئی والی بات ہوگی مگر جنرل درانی نے اپنی کتاب میں بھارت کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ ممبئی حملوں جیسی صورت حال میں پاکستان پر چڑھ دوڑے۔ البتہ ایسا کرتے ہوئے وہ پاکستان کے ’’ذمے داران‘‘ کو ’’اعتماد‘‘ میں لے لے۔ شکر ہے جنرل درانی نے پاکستان کے جوابی حملے کے حق پر اصرار کیا مگر ان کا اصرار اس لیے شرمناک ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان پر دس بم گرانے کا حق دے رہے ہیں اور پاکستان کے لیے بھارت پر صرف ایک بم گرانے کا حق مانگ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کے مقابلے پر پاکستان بہت چھوٹا ملک ہے چناں چہ ان کے بموں میں ایک اور دس کی نسبت ہونی چاہیے۔ بھارت کا حق پاکستان پر دس بم گرانا ہے اور پاکستان کا حق بھارت پر صرف ایک بم مارنا ہے۔ اتفاق سے بھارت ہی نہیں امریکی بھی برسوں سے پاکستانیوں کو یہی سمجھا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت بڑا ملک ہے‘ پاکستان چھوٹا ملک ہے چناں چہ پاکستان کو بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بن کر رہنا چاہیے۔ جب بھارت آواز لگائے ’’اوئے چھوٹے‘‘ تو پاکستان کہے ’’جی استاد جی کیا بات ہے۔۔۔ حکم فرمائیے؟‘‘۔ کاش کوئی جنرل درانی کو بتائے کہ قومیں اپنے جغرافیے اور اپنی آبادی سے چھوٹی بڑی نہیں ہوتیں‘ قومیں اپنے ایمان‘ اپنے ایقان‘ اپنے Conviction‘ اپنی آرزوؤں اور اپنے عزائم سے چھوٹی اور بڑی ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چھوٹا پن کئی نسلوں سے جنرل درانی کے خون کا حصہ ہے اور وہ خود جتنے چھوٹے ہیں پاکستان اور پاکستانی قوم کو بھی اتنا ہی چھوٹا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جنرل درانی کے ان خیالات کو پڑھ کر ان کا تصور قوم بھی نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ جنرل درانی کا تصور قوم یہ ہے کہ قوم کو دھوکے‘ جھوٹ‘ مکر اور فریب پر پالو۔ اسے بتاؤ کہ بھارت نے ہم پر حملہ کیا ہے تو ہم نے بھی اس کا جواب دیا ہے۔ حالاں کہ جو اصل صورت حال ہوگی وہ جنرل درانی پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ ایک قائد اعظم تھے جنہوں نے کہا بھارت کے مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ نہ کہا جائے‘ وہ ایک ’’قوم‘‘ ہیں۔ ایک جنرل درانی صاحب ہیں جو بتا رہے ہیں کہ پاکستان بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ ہے اور پاکستانی ایک قوم نہیں ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ اتنی چھوٹی سی اقلیت کہ اگر بھارت مذاق میں اس پر دس بم گرائے تو اسے بھارت کے خلاف مذاق میں بھی صرف ایک بم استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں میں بڑا فرق ہے۔ بھارت کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل درانی اور میاں نواز شریف میں کوئی فرق ہی نہیں بلکہ دونوں بغل گیر ہوتے ہوئے ’’سول فوجی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
جنرل درانی نے اکھنڈ بھارت کے تصور کے حوالے سے اسپائی کروینکلز میں جو گفتگو کی ہے وہ ہم اپنے کالموں میں پیش کر چکے ہیں مگر اس گفتگو کا ایک حصہ قارئین تک پہنچنے سے رہ گیا ہے۔ یہ حصہ کیا ہے‘ را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت اور جنرل درانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
امر جیت سنگھ دولت: ’’کچھ لوگ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
جنرل درانی: ’’مجھے اکھنڈ بھارت پر گفتگو میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم یہاں تک تو آ ہی گئے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔‘‘
امر جیت سنگھ: ’’جیسا کہ آدیتیہ کہے گا کہ یہ ایک طرح کی علمی بحث یا Academic Discussion ہے۔‘‘
جنرل درانی: ہم بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن بنانے کی طرف جا سکتے ہیں اور پھر اس کے بعد متحدہ ہندوستان یعنی United India کی طرف مگر سوال یہ ہے کہ تاریخ کے عمل کو کیسے الٹایا یا Reverse کیا جائے؟ آئیے اس پر بات کریں۔ یورپی اقوام طویل عرصے سے یہی کہہ رہی ہیں انہیں یورپ سے متعلق چرچل کے تصور پر عمل میں نصف صدی لگ گئی۔‘‘ (اسپائی کروینکلز۔ باب 8)
آپ نے دیکھا آئی ایس آئی کا سابق سربراہ پاکستان کو ختم کرنے اور اسے United India کا حصہ بنانے کی سازش پر کس آرام اور سکون سے ساتھ بات کررہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے مجھے اکھنڈ بھارت کے تصور پر بات کرانے میں کوئی مشکل نہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں پاکستان کیسے ٹوٹا؟ سقوط ڈھاکا کیسے ہوا؟ کسی کو واقعتا ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہو تو جنرل درانی کے ذہن کو پڑھے‘ ان کی نفسیات کا مطالعہ کرے‘ ان کی پاکستان سے لاتعلقی کا تجزیہ کرے۔ آخر انہوں نے اکھنڈ بھارت کے تصور کو قبول کرکے اپنے ذہن‘ اپنے دل اور اپنی روح میں سقوط اسلام آباد پر مہر لگانے کے سوا کیا کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ سردست اس کے سوا کچھ کرنے کی پوزشن میں نہیں۔ ہوتے تو وہ اپنی فکر کو عملی بنانے کی کوشش کرتے۔
اتفاق سے جنرل درانی نے اپنی کتاب میں جنرل حمید گل کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنرل حمید گل ذہین بھی تھے اور صاحبِ مکالمہ بھی۔ لیکن جنرل حمید گل کے حوالے سے یہ اصل بات نہیں‘ اصل بات کیا ہے؟ جنرل درانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’جنرل حمید گل کہا کرتے تھے کہ بھارت ہمارے لیے بہت بڑا ہے اور ہمیں اسے توڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ان کی بات پر ہنستے تھے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں سوچتا تھا کہ بھارت کو توڑنا ممکن نہیں بلکہ ایک بار کسی نے کہا کہ ایسا ہوا تو یہ اچھا ہوگا۔ مطلب یہ کہ بے ضابطہ گفتگو میں عفریت کو توڑنے کی بات ہوتی تھی۔‘‘ (اسپائی کروینکلز۔ باب 8)
چلیے ہمارے ریاستی اداروں میں کوئی تو ایسا تھا جو بھارت کو توڑنے کے سلسلے میں کم از کم خیالی پلاؤ تو پکاتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسی باتیں سن کر کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ جو کہا جارہا ہے ناممکن ہے۔ مگر بھارت کو توڑنے کی باتیں سننے والے جنرل درانی آج اکھنڈ بھارت اور متحدہ ہندوستان کی بات کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے لب و لہجے سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس ہولناک سانحے کو ’’ممکن‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن پر جنرل درانی کا صرف ایک دن میں کورٹ مارشل ہو جانا چاہیے تھا۔
جنرل درانی نے ایک جگہ اپنی کتاب میں ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ڈاکٹر قدیر کا کردار ’’فیصلہ کن‘‘ نہیں مگر اہم یا ان کی اصطلاح میں Substantial تھا۔ تاہم جب ایک بار انہوں نے سابق صدر غلام اسحاق خان سے ڈاکٹر قدیر کی شکایت کی اور کہا کہ وہ تقریبات میں بہت جاتے ہیں اور بیانات بھی کافی دیتے ہیں جو ایک ایٹمی سائنس دان کے لیے مناسب نہیں تو غلام اسحاق خان نے کہا کہ ڈاکٹر ایٹمی پروگرام کے لیے ’’ناگزیر‘‘ ہیں اس لیے ہمیں ان کے بعض معاملات کو نظر انداز کرنا ہوگا۔‘‘ (اسپائی کروینکلز۔ باب:4)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل درانی ڈاکٹر قدیر کو ایک سول شخص سے زیادہ نہیں سمجھ سکے۔ لیکن اس کتاب کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کتاب پر پاکستان میں جتنی گفتگو ہونی چاہیے تھی اتنی گفتگو نہیں ہوئی۔ آخر جب کتاب میں اکھنڈ بھارت کے تصور کا دفاع کیا گیا ہو‘ دو قومی نظریے کا انکار کیا گیا ہو اور اس حوالے سے ہمارے مذہب‘ تہذیب اور تاریخ کی تذلیل کی گئی ہو اس کتاب پر بات نہیں ہوگی تو پھر کس کتاب پر بات ہوگی؟ مگر بہرحال یہ کتاب کہیں بھی پوری طرح زیر بحث نہیں آسکی ہے۔ یہ صورت حال پورے معاشرے کی مجرمانہ روش کی عکاس ہے اور اس میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کئی ہولناک اندیشے موجود ہیں۔