عمران خان مخمصے میں

359

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو طویل ترین دھرنا دینے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اب ان کے کارکن کئی دن سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ برہم ہیں ۔ انہوں نے متکبرانہ انداز میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے جن افراد کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ ہرگز واپس نہیں لیں گے۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ انتخابی نتائج کیا نکلتے ہیں، یہ تو 25جولائی کے بعد ہی پتا چلے گا لیکن اگر کوئی حکمران اپنے فیصلوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو یہ اچھا عمل نہیں سمجھا جائے گا۔ اسے ضد کہا جاسکتا ہے۔ عمران خان یاد کریں جب انہوں نے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھات و اس وقت ان کا رویہ کیا تھا اور اس وقت کی حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا تو کیا وہ خود یہی نہیں کررہے بلکہ یہ معاملہ اس لحاظ سے زیادہ سنگین ہے کہ اس وقت ان کے مقابل خود ان کے چاہنے والے ہیں جو ٹکٹوں کی تقسیم پر احتجاج کررہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ ناراض کارکنوں نے بنی گالا کا محاصرہ کررکھاتھا اور تحریک کے رہنماؤں کو بھی آگے جانے سے روک رکھا تھا۔ عمران خان خود بھی محصور تھے۔ تو کیا اس بار بھی وہ کسی امپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر تھے۔ تاہم یا تو وہ اپنے فیصلے واپس لینے پر تیار نہیں تھے یا جمعہ کو انہوں نے کچھ امیدواروں سے ٹکٹ واپس لے لیے اور امیدواروں کے انتخاب کے لیے بنایا گیا بورڈ توڑ دیا۔ دباؤ کے آگے جھک جانے کی یہ مثال حکمرانوں کے لیے مستحسن نہیں کہی جاسکتی۔ اگر اقتدار کاہما ان کے سر پر بیٹھ ہی گیاتو کیا آئندہ بھی وہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ پر ہتھیار نہیں ڈال دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان بار بار اپنے پیروں پر کلہاڑیاں برسا رہے ہیں جس سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ان کے چاہنے والے مایوس ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ناراض ارکان نے اسلام آباد میں اجلاس طلب کیا ہے اور عمران خان کو 26جون تک کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ٹکٹوں کے فیصلے پرنظر ثانی کریں ۔ ان ارکان کا کہنا ہے کہ پارلیمانی بورڈ میں شامل رہنما نا اہل اور نیب زدہ ہیں۔ ان ارکان میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں جن کو عمران خان کا ’’بٹوہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ گو کہ جہانگیر ترین نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ انہوں نے بڑی چھان بین کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان کو نیب زدہ کہا جارہا ہے کہ انہیں عدالت نے نا اہل قرا ر دے دیا ہے۔ تحریک انصاف میں اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اور ممکن ہے کہ عمران خان بھی خلائی مخلوق کا شکوہ کربیٹھیں۔ خیبر پختونخوا کے ناراض ارکان نے نیا گروپ قائم کرلیا ہے۔ حامد خان ایڈووکیٹ عمران خان کے بہت بڑے حامی اور مددگار تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ قربانیاں دینے والوں پر پیسے والوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ دھرنا دینے والے کارکنوں کا کہنا بھی یہی ہے کہ لوٹوں اور پیراشوٹ سے اترنے والوں کو ٹکٹ دیے گئے۔ کئی ایسے لوگوں کو ٹکٹ ملے جو دوسری جماعتوں سے ٹوٹ کر تحریک میں آئے۔ انہیں پیرا شوٹر کہا گیا ہے جو اوپر سے مسلط ہوئے۔ایسے لوگوں کے لیے ’’الیکٹ ایبل‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی یعنی وہ کسی پارٹی میں ہوں، منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ تبدیلی لانے کے دعویداروں کو زیب دیتا ہے اور کیا لوٹوں کی مدد سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ جن کارکنوں نے پارٹی کے لیے اپنی جان لڑا دی انہیں نظر انداز کر کے سیاسی اثر رسوخ رکھنے والوں کو ترجیح دینا پارٹی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے خواہ کوئی پارٹی ہو۔ کارکنوں کی بغاوت سے قطع نظر تحریک انصاف کے رہنما بھی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوگئے ہیں۔ تحریک کے نائب صدر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں ٹھن گئی ہے۔ شاہ محمودقریشی بھی پیپلز پارٹی میں وفاقی وزارت کے مزے لے کر تحریک انصاف تک پہنچے ہیں۔ چند دن پہلے بھی انہوں نے نام لیے بغیر جہانگیر ترین پرتنقید کی تھی اور جہانگیر ترین ہی نے کہا تھا کہ محمود قریشی کا اشارہ ان کی طرف ہے۔ مگر اب بات اشاروں سے آگے بڑھ گئی ہے۔ گوکہ ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میرا جہانگیر ترین سے کیا مقابلہ، وہ تو انتخابی عمل ہی سے باہر ہیں۔ انہوں نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ ان کے سامنے جہانگیر ترین کی حیثیت ہی کیا ہے۔ جب کسی پارٹی کے اہم رہنما ہی آپس میں الجھ پڑیں تو پارٹی سربراہ کی حالت دو بیویوں کے شوہر جیسی ہوتی ہے کہ کس کو خوش کیا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے جمعہ کو اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جو کسی گیم میں شامل ہی نہیں اس سے مقابلہ نہیں بنتا، مقابلہ تو سیاست میں ہوتا ہے، وہ پاگل ہیں جو جہانگیر ترین سے مقابلہ کریں ۔ اور جہانگیر ترین نے ردعمل میں کہا کہ جواب دینے کے قابل کوئی چیز ہو تو جواب دوں۔ جو پارٹی رہنما اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو متحد اور مطمئن نہ رکھ سکے اس سے کسی نمایاں تبدیلی لانے کی امید کیا کی جائے۔ مسلم لیگ ن بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کی شکار ہے۔ پنچھی اڑ اڑ کر کسی اور ڈال پر بیٹھ رہے ہیں ۔ پارٹی کے اندر بھی سب اچھا نہیں ہے۔32 سال تک مسلم لیگ کا ساتھ دینے اور بقول خود میاں نوازشریف کا بوجھ اٹھانے والے چودھری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور تازہ ترین انحراف زعیم قادری کا ہے جن کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملا تو انہوں نے علم بغاوت بلند کردیا اور اب آزادانہ صوبائی انتخاب لڑنے چلے ہیں ۔ زعیم قادری وہ ہیں جو ٹی وی چینلز پر نواز شریف کا مقدمہ بڑھ چڑھ کر لڑتے رہے ہیں ۔ مگر ان کے مقابلے میں حمزہ شہباز نے کسی اور کو ترجیح دی ہے۔ اس اہم ترین موقع پر نوازشریف اور میدان سیاست میں تازہ وارد ان کی بیٹی مریم صفدر ملک سے باہر ہیں ۔ ان کا جواز معقول ہے کہ اس وقت کلثوم نواز موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور شوہر اور بیٹی کی لندن میں موجودگی ضروری ہے۔ لیکن مریم کی غیر حاضری کا اثر انتخابی معرکے پر تو پڑے گا۔