عافیہ پر مزید ظلم کی تیاریاں

331

پاکستانی حکمران امریکی حکام کے ساتھ مل کر پاکستانی قوم کی بیٹی پر مزید مظالم کے لیے کمربستہ ہوگئے ہیں۔ حال ہی میں ہیوسٹن میں تعینات امریکا میں پاکستانی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی نے عافیہ صدیقی سے جیل میں ملاقات کی۔ اس کی رپورٹ خفیہ قرار دے کر حکام بالا کے حوالے کردی اور پاکستان کی ایک خبر ایجنسی کو یہ رپورٹ مل گئی۔ پوری خبر کا محور پاکستان کی بیٹی عافیہ کے ساتھ جنسی ہراسانی اور جسمانی تشدد ہے۔ اس خبر کے مطابق جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ ہے کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی عافیہ کے مقدمے کے لیے مختص 20 لاکھ ڈالر ہڑپ کرگئے۔ ہمارے نزدیک حسین حقانی کیا ہڑپ کر گئے اور کیا نہیں۔ زیادہ اہمیت کی حامل بات نہیں ہے۔ اب تو وہ قصہ پارینہ ہوچکے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی بیٹی امریکی قید میں ہے اس کے حوالے سے خبریں کبھی کبھار سامنے آجاتی ہیں۔ کبھی یہ بھی پتا چلتا ہے کہ عافیہ کی رہائی کی راہ میں پاکستانی قوتیں ہی رکاوٹ ہیں۔ یہ 20 لاکھ ڈالر سے بڑا نقصان ہے۔ پاکستانی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی نے 23 مئی کو عافیہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو خفیہ رپورٹ قرار دیا گیا اور جو نکتے اجاگر کیے گئے وہ یہ ہیں کہ عافیہ پر جنسی اور ہراسانی اور جسمانی تشدد کی تصدیق ہوگئی، اسے کوئی دوا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے عافیہ ہر وقت غنودگی میں رہتی ہیں۔ ہمارے خیال میں عافیہ پر ذہنی، جسمانی، جنسی، نفسیاتی ہر قسم کے تشدد کی خبروں کی تصدیق یا تردید اب غیر ضروری ہوچکی ہے۔ اصل معاملہ عافیہ پر مظالم کی تصدیق یا تردید بھی نہیں ہے، اصل معاملہ عافیہ کی واپسی ہے۔ اسے وطن واپس لانے کے لیے پاکستانی حکومت کیا اقدامات کررہی ہے؟ اس نے کتنے خطوط امریکی حکام یا صدر کو لکھے ہیں۔ اوباما نے تو عندیہ بھی دیا تھا اور اپنے مشیروں کے ذریعے پیغام بھی پہنچایا تھا کہ اگر پاکستانی صدر، وزیراعظم یا وزیر خارجہ لکھ کر دے دیں کہ عافیہ پاکستانی ہے اسے پاکستان کے حوالے کردیا جائے تو میں سزا معاف کردوں گا۔ لیکن کسی پاکستانی حکمران نے ایک خط تو دور کی بات ہے زبانی بھی بات نہیں کی اور ایک سطر بھی نہیں لکھی۔
اب آجائیں عائشہ فاروقی کے کارنامے کی طرف۔ انہوں نے عافیہ سے ملاقات کی۔ بہت اچھا کیا۔ اس کے گھر والوں تک خط پہنچایا اچھی بات ہے۔ لیکن یہ جو خفیہ رپورٹ ہے اس کا کون سا حصہ ایسا ہے جس سے پاکستانی قوم واقف ہے۔ شاید خفیہ رپورٹ بتانے والوں کی دلچسپی حسین حقانی کے بارے میں انکشاف ہو۔ لیکن ان کی اطلاع کے لیے یہ بھی بتادیں کہ حسین حقانی اس سے بھی بڑی وارداتیں کرچکے۔ پاکستان کے خلاف سازش، میمو گیٹ اسکینڈل 20 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں بہت بڑی سازش ہے لیکن حسین حقانی اس کا حصہ رہنے کے باوجود مزے میں ہیں۔ اب دفتر خارجہ پاکستان نے دوسرا بڑا تیر مارنے کا فیصلہ کیا ہے کہ امریکا سے عافیہ پر ہونے والے تشدد اور مظالم کی وضاحت طلب کی جائے گی۔ اس میں بھی دو نکتے ہیں ایک تو یہ کہ وضاحت طلب کی جائے گی اور دوسرے یہ کہ عافیہ کی بقیہ سزا پاکستان میں گزاری جائے تا کہ اس کی عزت محفوظ رہ سکے۔
اب اگر ہمارے دفتر خارجہ نے بالفرض 20 واقعات کی نشاندہی کی اور امریکا سے جواب آیا کہ جی نہیں آپ کی معلومات غلط ہیں ایسا صرف 9 دفعہ ہوا ہے۔ اور پھر یہاں سے جواب جائے اور کسی جگہ معاملہ طے ہو کہ اچھا 11 یا 13 مرتبہ یہ واقعات ہوئے ہیں۔ یہ ہماری عزت کو بازار میں اچھالنے کے مترادف ہے۔ غیرت دار لوگ تو صرف بدنامی کے خوف سے ایسی باتیں پولیس اور عدالت کے علم میں نہیں لاتے۔ اور اب تو مرچ مسالے والا میڈیا بھی ہے۔ بار بار عافیہ کی تصویر اور جنسی زیادتی کا تذکرہ۔ بے شرم حکمرانوں کو اصل کام کرنا چاہیے صرف اور صرف عافیہ کی واپسی۔ اور یہ جو کہا جارہا ہے کہ بقیہ سزا پاکستان میں گزارے، اس کو بالکل سامنے نہ لایا جائے اب تو دیوانے ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف غلط مقدمات بنائے گئے ہیں ان کی رہائی اور سزا معاف کرنے پر غور کررہے ہیں تو ان سے بھی کہا جاسکتا ہے پورا کیس پیش کیا جاسکتا ہے کہ عافیہ کے خلاف مقدمہ، سماعت اور سزا سب ناانصافی پر مبنی تھے اسے ناکردہ گناہ پر سزا دی گئی جب کہ اس کے خلاف مقدمے میں وہ الزامات بھی ثابت نہیں ہوئے جو استغاثہ نے عاید کیے تھے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ یہ لکھے گا کون۔ اس مسئلے کا حل سامنے نہیں آرہا کہ پاکستان میں وہ کون سی قوت ہے جو صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور دفتر خارجہ کو چند سطور لکھنے سے روک دیتی ہے۔ پاکستانی حکومت سے ہماری درخواست ہے کہ حسین حقانی کے معاملے میں جو چاہے وضاحت مانگیں لیکن عافیہ کی عصمت کو میڈیا کے ڈراموں کے حوالے نہ کیا جائے۔ اس کا معاملہ تو صرف اس کی واپسی ہے اور باتیں پوچھنے اور ان پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے عزت اور اچھالی جائے گی یہ ایک پاکستانی کے لیے تکلیف دہ بات ہوگی۔