آزادی کا ادھورا تصور

545

آزادی کا ترانہ ایک مقبول ترین ترانہ ہے۔ اس ترانے کی ایک سطح سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہے، اس ترانے میں بعض نفسیاتی پہلو بھی مضمر ہیں جو انسان کی خواہشوں اور آرزوؤں سے متعلق ہیں۔ اس ترانے کا ایک زوایہ مابعد الطبیعیاتی یا مذہبی بھی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
آزادی کی عظمت تسلیم، آزادی کے ترانے کی مقبولیت بجا، آزادی سے انسان کی وابستگی قابل ستائش، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں آزاد انسان ایک خواب اور ایک امکان کا نام ہے۔ خواب اس لیے کہ آزاد انسان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اور امکان اس لیے کہ بہرحال آزاد انسان روئے زمین پر موجود رہے ہیں اور یقیناًاب بھی ہوں گے۔ مگر یہ لوگ نایاب ہیں۔ اتنے نایاب کہ جہاں میں نہیں ملتے والی صورت ہے۔ بقول سلیم احمد کے
نایاب ہیں اتنے کہ جہاں میں نہیں ملتے
ہم کارگہہ شیشہ گراں میں نہیں ملتے
بلاشبہ انسان نے ہمیشہ آزادی کے ترانے گائے ہیں اور یہ بات اس کے خمیر میں مضمر حریت پسندی کا ایک بڑا ثبوت ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انسان نے ہمیشہ بالعموم اس کے ادھورے تصور کی پرستش کی ہے، اس آدھے تصور کا لب لباب یہ ہے کہ انسان نے اپنی ’’غلامی‘‘ کو تو ناپسند کیا ہے لیکن دوسروں کو غلام بنانے کی اپنی خواہش پر کبھی قابو نہیں پاسکا۔ چناں چہ اس نے خود کو ہمیشہ ’’آقا‘‘ کی صورت میں پسند کیا ہے اور اس کے لیے فلسفیانہ موشگافیاں کی ہیں۔ اس کے لیے وہ کبھی تاریخ و تہذیب کے تصورات کو بروئے کار لایا ہے، کہیں اس نے اپنے لسانی اور نسلی پس منظر سے استفادہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اس سلسلے میں مذہبی تصورات کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ مثالیں جس طرح فرد اور افراد پر منطبق ہوتی ہیں اسی طرح ان کا اطلاق گروہوں اور قوموں پر بھی ہوتا ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزادی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان نہ کسی کا غلام ہوا اور نہ کسی کا آقا۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ یقیناًایسا ممکن ہے اور ایسا ممکن ہوا ہے لیکن ایسا ہونا بہت مشکل ضرور ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غلامی ایک پیچیدہ صورتِ حال کا دوسرا نام ہے اور غلامی کی نفسیات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ غلامی کے سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ غلامی کا تجربہ فرد یا گروہ یا کسی قوم کو کس حد تک متاثر کرتا ہے۔
بلاشبہ غلامی کی ہر صورت ناپسندیدہ ہے لیکن بہرحال غلامی کا تجربہ مختلف لوگوں پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگ ’’غلام‘‘ بن کر زندگی کے تئیں پہلے سے زیادہ ذمے دار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ خود کو ہر ذمے داری سے آزادی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ غلامی کے ساتھ اس طرح زندگی بسر کرنے لگتے ہیں جیسے وہ ان کی شریک حیات ہو۔ ایسے لوگوں کو اگر سوچنے سمجھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت بھی حاصل ہو تو وہ غلامی کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں کی اچھی خاصی فہرست مرتب کرلیتے ہیں اور نہ صرف خود اس فہرست کے نکات پر عمل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ان نکات کی پابندی و پاسداری کا درس دیتے ہیں۔ درس اور وعظ و تلقین خواہ کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہو انسان کو اس کا یہ فائدہ بہر حال ہوتا ہے کہ لوگ اسے مدبر اور مصلح قوم وغیرہ قرار دے دیتے ہیں۔ بیشک یہ بڑا مرتبہ ہے، لیکن غلامی کی بدترین صورت بہرحال یہی ہے کہ غلامی انسان کی نفسیات کا جزو لاینفک بن جائے، یہاں تک کہ غلامی کا احساس انسان کے اخلاق اور قوت ارادی پر بھی چھاپا مار دے۔ جن لوگوں کی نفسیات کو غلامی اس حد تک متاثر کردیتی ہے ان کے حوالے سے غلامی اور آقائیت ہم معنی الفاظ بن جاتے ہیں اور انہیں بلاخوف تردید ایک ہی سکے کے دو رُخ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی غلامی انہیں ہمیشہ آقائیت کی منزل کی جانب محو سفر رکھتی ہے اور آقا بن کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے غلامی سے نجات پالی ہے لیکن یہ ان کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہوتا کیوں کہ آقا بن کر ان کی غلامی کا مسئلہ مزید پیچیدہ، گمبھیر اور افسوسناک ہوجاتا ہے۔ آئیے اس صورتِ حال کی بعض مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
سماجی حرکت پزیری (Social Mobilty) ’’ترقی‘‘ کے عمل کا ایک دلکش منظر اور تجربہ ہے لیکن طبقاتی نفسیات کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ طبقاتی ہی رہتی ہے۔ چناں چہ طبقاتی نفسیات ایک دئمی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ نچلے طبقات ایک جانب بالائی طبقات کے خلاف شدید ردعمل بھی ظاہر کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سماجی حرکت پزیری کے عمل کے تحت بالائی طبقات میں شمولیت کی ’’تاریخی جدوجہد‘‘ بھی جاری رہتی ہے۔ کچھ لوگ اس جدوجہد میں کامیاب رہتے ہیں، ان کا سماجی مرتبہ بدل جاتا ہے لیکن اس تبدیلی کا نفسیاتی کلائمکس یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے سابقہ طبقے سے اس سے زیادہ نفرت کرنے لگتے ہیں جتنی نفرت وہ کبھی بالائی طبقات سے کرتے تھے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں غلامی اور آقائیت کے مفاہیم باہم گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔
جیسے جیسے دُنیا کی مجموعی ابتری بڑھ رہی ہے، یہ تلخ حقیقت عیاں ہورہی ہے کہ کیسے محبت ایک غلامی سے دوسری غلامی تک کے سفر میں تبدیل ہورہی ہے اور کیسے محبت کا تجربہ زیادہ سے زیادہ غلبے یا کسی نہ کسی قسم کی اتھارٹی یا استناد کے حصول کے لیے بروئے کار آرہا ہے۔ یہ ایک المناک منظر ہے لیکن یہ جو کچھ بھی ہے غلامی کی نفسیات کا نتیجہ ہے۔ بیشتر صورتوں میں یہ غلامی طبقاتی غلامی کا شاخسانہ ہے اور اس میں ایک قسم کی سماجی شرکت پزیری کے عمل کو (جو کہیں کہیں نفسیاتی حرکت پزیری بن جاتی ہے) صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے، محبت کے بارے میں ایک اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ محبت آزاد کرتی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن معلوم یہ ہوا کہ آزادی کا یہ سرچشمہ آلودہ ہوچکا ہے۔
آزادی اور غلامی کا یہ مسئلہ صرف سیاسی و سماجی دائروں تک محدود نہیں، اس کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں ’’جدیدیت‘‘ کو ’’ادھوری جدیدیت‘‘کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جدیدیت ہر چیز کا انکار کرتی ہے لیکن بالآخر اپنے انکار کی اسیر ہوجاتی ہے اس لیے یہ ادھوری ہے۔ زندگی کا مسئلہ یہی ہے۔ ایک بغاوت دوسری بغاوت کی راہ روکتی ہے اور اسے مسترد کرتی ہے۔ ایک انقلاب جوابی انقلاب کو قبول نہیں کرتا اور اس کی مزاحمت کرتا ہے، اس لیے کہ ہر بغاوت اور ہر انقلاب بجائے خود ایک اصول بن جاتا ہے۔
انسان غلامی کو ناپسند کرتا ہے اور آقا بننے کو پسند کرتا ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی فرق ہی نہیں، اس لیے غلامی سے نجات کا تصور آزادی کا ناقص تصور ہے لیکن حقیقی معنوں میں ایک آزاد انسان کا تصور کیا ہے؟ مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو آزاد انسان وہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو خوف، حزن اور ملال سے بے نیاز ہے، اس کی ایک وضاحت نفس کی مختلف کیفیتوں اور درجوں کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ ایک نفس امارہ ہے، ایک نفس لوامہ اور ایک نفس مطمئنہ نفس مطمئنہ گویا آزاد انسان کا طرہ امتیاز ہے۔ دیکھا جائے تو اسلام کا سارا فلسفہ ہی وسیع تر معنوں میں ’’آزادی‘‘ کا فلسفہ ہے۔ یہاں تک کہ دُعا بھی ’’آزادی‘‘ ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ تصور ہر سطح پر کلام کرتا ہے۔ ایک سطح یہ ہے کہ تمہیں قبائل اور گروہوں میں اس لیے تقسیم کیا گیا کہ شناخت ہوسکے۔ ایک سطح یہ ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ ان تمام تصورات کی پشت پر ایک ہی تصور کارفرما ہے۔ توحید کا تصور۔ اس تصور کے بغیر انسان کی آزادی کیا اس آزادی کے امکان کی بات کرنا بھی حماقت ہے۔