فورسز کے زیر قبضہ بند سڑکیں

161

عدالت عالیہ اسلام آباد نے حکم دیا ہے کہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کے سامنے بند کی گئی سڑک کھول دی جائے اور یہ بتا یا جائے کہ سڑک کیوں بند کی گئی۔ جناب جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ فورسز کی قربانیوں سے انکار نہیں مگر عوام کے حقوق کا تحفظ ہر صورت میں کریں گے۔ اسلام آباد کی یہ مصروف ترین سڑک جس پر آئی ایس آئی کا دفتر ہے، برسوں سے عوام کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے بہت گھوم کے جانا پڑتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ جن اداروں پر عوام کی حفاظت کی ذمے داری ہے انہیں خود اپنی حفاظت کی پڑی ہوئی ہے۔ آئی ایس آئی ہی کیا فوج ، رینجرز اور فورسز کے دیگر اداروں نے خود کو قلعہ بند کیا ہوا ہے۔ کراچی میں رینجرز کا ہیڈکوارٹر ہی دیکھ لیں۔ برسوں سے ایک ہوسٹل کی عمارت پر رینجرز کا قبضہ ہے اور پہلے تو فٹ پاتھ پر قبضہ کیا گیا پھر اس سے آگے سڑک کے بڑے حصے پر قبضہ جمالیا۔ برابر میں واقع مسجد کا بڑا راستہ بھی بند ہے۔ کراچی پریس کلب کو جانے والی سرور شہید روڈ پر ساحلی محافظوں یعنی کوسٹ گارڈز کا صدر دفتر ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ پہلے تو فٹ پاتھ پر قبضہ جمایا گیا اور اب آدھی سڑک رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردی گئی۔ کیا کبھی کراچی کی سڑکوں کے بارے میں کوئی عدالت یہ کہے گی کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے جسٹس شوکت عزیز نے آئی ایس آئی کے زیرقبضہ خیابان سہروردی کھولنے کا حکم دینے کے ساتھ میڈیا ہاؤسز کو بھی رہایشی علاقوں سے اپنے دفاتر منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ کراچی میں بھی ایک بڑے میڈیا ہاؤس نے سڑک پر قبضہ کر کے باقاعدہ گیٹ لگا دیے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے گزشتہ جمعہ کو کراچی میں سماعت کے دوران میں سڑکوں کی بندش پر آئی جی سندھ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ جن سڑکوں اور عمارتوں پر فورسز کا قبضہ ہے ان کو خالی کرانا آئی جی کے بس میں کہاں ہے۔ اگر میڈیا ہاؤسز کو رہایشی علاقے خالی کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے تو فورسز کے دفاتر کو شہری علاقوں سے باہر رکھنا زیادہ ضروری ہے اور ان کے لیے بھی بہتر ہے۔ راشد منہاس روڈ پر سی او ڈی کی بہت وسیع زمین ہے کئی سینما ہاؤسز اور شادی ہال بنانے کے باوجود بہت بڑا علاقہ ابھی خالی ہے۔ وہاں فورسز کے دفاتر منتقل کیے جاسکتے ہیں گو کہ اب یہ علاقہ بھی رہایشی حدود میں آگیا ہے۔کبھی شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں اسلحہ ڈپو بنایا گیا تھا۔ رہایشی علاقے میں اس کی موجودگی خطرے سے خالی نہیں ۔ ائرپورٹ بھی نزدیک ہے۔ اوجڑی کیمپ اور لاہور کے اسلحہ ڈپو کا سانحہ یاد ہوگا۔ اسے بھی شہر سے باہر منتقل ہونا چاہیے۔