پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کی دھمکی

272

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے گزشتہ جمعہ کو کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا فارمولا 10دن میں پیش کردیا جائے اور رپورٹس میں جھول ہواتو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ جناب جسٹس نے سرکاری حکام کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی کہ حکام ڈیلرز کے ساتھ مل کر کھیل کھیل رہے ہیں، عوام پر ترس کھائیں، لوگ بلک رہے ہیں ۔ پیٹرول کی قیمت میں یکدم اضافے سے مہنگائی بڑھتی ہے اور یہ ڈیلرز اور سرکاری اداروں کی اجارہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے ایسا فارمولا طلب کیا ہے جس سے قیمتوں میں کمی ممکن ہو لیکن اس موقع پر نگران حکومت کے سیکرٹری خزانہ عارف خاں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں، جو قیمتیں بڑھائی گئی ہیں وہ آدھا اضافہ ہے۔ یکم جون کو قیمتوں میں رد و بدل نہیں کیا گیا لیکن بہت دباؤ تھا چنانچہ قیمتیں بڑھائی گئیں۔ سیکرٹری خزانہ نے مزید مہنگائی کا بگل بجا دیا ہے۔ اس پر جناب ثاقب نثار نے کہا کہ اس کا مطلب ہے شہریوں پر مزید عذاب مسلط کیا جائے گاتو سیکرٹری خزانہ نے اثبات میں گردن ہلادی کہ ہاں ایسا ہی ہوگا۔ وہ نگران حکومت کے سیکرٹری خزانہ ہیں جس کی مدت 25جولائی تک ہے بشرطیکہ انتخابات بروقت ہوجائیں۔ اب تک ایسی افواہیں گردش میں ہیں کہ خلائی مخلوق رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ بہرحال نگران حکومت کے سیکرٹری خزانہ کو اس سے کیا غرض کہ شہریوں پر مزید عذاب مسلط ہو جائے۔ وہ تو اپنا سامان سمیٹ کر نکل لیں گے۔ نگران حکومتوں سے پہلے کی پکی حکومتیں کون سی عوام کی خیرخواہ تھیں بقول امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے، انہوں نے اثاثے بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا اور یہ کام بھی اندھا دھند کیا ہے، یہ سمجھ کر کہ عوام تو اندھے ، گونگے، بہرے ہوتے ہیں ۔ اس وقت صرف چیف جسٹس پاکستان ایسے نظر آتے ہیں جو عوام کے بنیادی مسائل اٹھا رہے ہیں اور کم از کم آواز ضرور بلند کرتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے والوں کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ عوام کی بات کیوں کرتے ہیں، عدالت میں بٹھ کر مقدمات نمٹائیں۔ لیکن پھر عوام کا مقدمہ کون لڑے گا، کیا وہ جو ارب پتی اور کھرب پتی بن گئے۔ چیف جسٹس اصل خرابیوں کی نشاندہی تو کررہے ہیں مگر لٹیرے مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس ریٹائر ہو جائیں گے، اس ملک میں ہم ہی رہ جائیں گے اور اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت کہا ہے کہ سیاسی وڈیروں نے پیٹرول پمپ کھول رکھے ہیں۔ اس میں شبہ کم ہی ہے اور اگر حکمرانوں نے براہ راست پیٹرول پمپ نہیں کھولے تو کسی اور کے نام پر لے رکھے ہوں گے یا اپنا حصہ شامل کررکھا ہوگا۔ سیاست دانوں کے جو اثاثے سامنے آئے ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔سیکرٹری خزانہ کا اب بھی اصرار ہے کہ 12جون کو جو قیمتیں بڑھائی گئی ہیں ان میں خیال رکھا گیا ہے کہ عوام پر ایک دم بوجھ نہ ڈالا جائے۔ عوام سے ایسی ہمدردی کا جواب نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس کادل چاہتا ہے ٹیکس عاید کردیتا ہے۔عدالت ٹیکسوں اور قیمتوں کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں ۔ حکمران دفتروں میں بیٹھ کر فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ درحقیقت پیٹرول پر عاید کئی ٹیکس غیر منصفانہ ہیں۔ حکومتوں نے اپنی حماقتوں سے پاکستان کو خسارے سے دو چار کررکھا ہے چنانچہ پیٹرول، گیس، بجلی جیسی بنیادی سہولتوں پر ٹیکس بڑھا کر خسارہ کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اوگرا حکام نے بوجھ حکومت پر ڈالتے ہوئے جواب دیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق فیصلے حکومت کرتی ہے اور یہ تاثر غلط ہے کہ پالیسیاں اوگرا بناتی ہے۔ لیکن خبریں تو یہی آتی ہیں کہ اوگرا نے قیمت بڑھانے کی سمری حکومت کو پیش کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیٹرولیم کی قیمتوں میں کوئی کمی ہوگی یا چیف جسٹس کی برہمی بے اثر جائے گی۔پاکستان میں روایت تو یہی ہے کہ جس چیز کی قیمت بڑھ گئی پھر نیچے نہیں آتی۔ ستم یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کسی تناسب کے بغیر اور بسا اوقات بے وجہ ہوتا ہے۔ رمضان کریم میں منافع خوروں نے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کردیا۔ حکمران بھی عوام کے خیر خواہ ہونے کے بجائے منافع خوری میں مصروف ہیں اور حکومت کے بجائے تجارت کررہے ہیں۔ ان کے جو اثاثے سامنے آئے ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک مال بنانے میں لگا رہا اور آئندہ بھی ایسے لوگوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں ۔ جن کو اب تک اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا وہ بھی اس لیے پھڑپھڑا رہے ہیں کہ ان کو باری دی جائے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ دنوں ارب پتی شہزادوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر بڑی رقمیں نکلوالی تھیں گو کہ اس کے ارادے کچھ اور ہیں لیکن پاکستان میں بھی یہی ہونا چاہیے کہ جو ارب پتی اور کھرب پتی ہیں اگر ان کے ذرائع آمدن جائز نہیں تو ان کی جائداد ضبط کرلی جائے۔ لیکن یہ کام کرے گا کون۔