حکمران اشرافیہ سے ایک فرمائش

320

انتخابی ضرورت کے تحت امیدواروں کی طرف سے الیکشن کمیشن میں داخل کرائے گئے گوشواروں سے حیرتوں کے کئی نئے جہانوں کے در وا ہو رہے ہیں۔ سیاست دانوں کے ازدواجی راز بھی کھلنے لگے ہیں اور ان کی مالی حیثیت بھی دنیا پر آشکار ہوتی جارہی ہے یہ وہ راز تھے جنہیں طشت ازبام ہونے سے بچانے کی خاطر پارلیمنٹ نے راتوں رات قانون میں تبدیلی کی کوشش کی۔ عدلیہ اس راہ میں مزاحم ہوئی اور سیاست دان اپنے راز قانون کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہوئے جہاں سے اب یہ میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ جس کے مطابق عوام کے بہت ہی مونس وغم خوار سیاست دان، خادمین اعلیٰ دولت کے ڈھیروں پر بیٹھ کر عوام کا غم کھاتے ہیں۔ حد تو یہ کہ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں چند برس بعد وہ دنیا بھر میں صاحب جائداد ہو گئے ہیں۔ زرعی زمینیں، کارخانے، بیرونی دنیا میں اپارٹمنٹس، ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹ، گاڑیاں، بنگلے غرضیکہ کہ ملکی قیادت پر دھن آسمان سے برستا رہا ہے۔ ان میں اکثر وہ ہیں جو سال ہا سال تک اقتدار میں رہ چکے ہیں اور شاید ان کی دولت کا راز اقتدار ہی میں پنہاں ہے۔ کئی ایک ایسے ہیں جو بظاہر تو ایک بیوی کی وفا کے کھونٹے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے گوشواروں کا دفتر کھلا تو دو بیویوں کے حامل قرار پائے حالاں کہ پبلک میں انہوں نے دوسری بیوی کا اقرار نہیں کیا۔ خواجہ سعد رفیق کے بعد عامر لیاقت اور حمزہ شہباز تک جانے کتنے ہی نام انتخابی ضرورت کے تحت اپنی زندگی کے تلخ راز کو بیان کرنے پر مجبور ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تب بھی رونا یہ ہے کہ ان کا سونا بھی مٹی ہے۔ گوشواروں میں درج اثاثوں میں سونے کی قیمتیں ہوں یا زرعی زمینوں اور بنگلوں کی قیمتیں اسے بیان کرتے وقت نہ مارکیٹ ریٹ کا خیال رکھا گیا ہے اور نہ زمینی حقائق کا۔ کروڑوں کے بنگلوں کی قیمت چند لاکھ اور لاکھوں کے سونے کی قیمت ہزاروں بیان کی گئی ہے۔ شاید یہ سب کچھ نیم دلی اور خانہ پری کی خاطر کیا گیا ہے۔
گوشوارو ں کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پاکستان کے حکمران کلاس ایک الگ دنیا اور الگ سیارے کی مخلوق ہے اور پاکستان کا عام شہری ماجا گاما قطعی الگ دنیا اور الگ جزیرے کا باسی ہے۔ یہ تفاوت ہی حکمرانوں کو عام آدمی کی تکالیف اور دکھوں سے آشنا نہیں ہونے دیتا۔ یہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے معاملات سے بے نیاز رہتے ہیں۔ یہ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو عوام دوست پالیسیاں اور بجٹ بنانے کے بجائے آئی ایم ایف کے ہدایت نامے پر من وعن عمل کرتے ہیں صرف یہی نہیں ان گوشواروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مملکت پاکستان کسی اور دنیا کا ملک ہے اور یہ سیاست دان کسی اجنبی دنیا کے باسی ہیں کیوں کہ پاکستان کی معیشت اس وقت تنی ہوئی رسی پر ڈول رہی ہے۔ دنیا میں غریب سیاست دانوں اور حکمرانوں کے امیر ملک تو بہت سے ہوں گے مگر امیر سیاست دانوں اور حکمرانوں کے غریب ملک بہت کم پائے جاتے ہیں اور پاکستان کا شمار انہی معدودے چند ملکوں میں ہونے لگا ہے۔
جدید اور حقیقی جمہوریت حکمرانوں اور سیاست دانوں کے لیے چیکس اینڈ بیلنسز کا انتظام کچھ اس انداز سے کرتی ہے کہ سیاست اور حکومت سے کمائی کے امکانات کم ازکم رہ جاتے ہیں۔ زمانۂ قدیم کی بادشاہتوں میں رعایا غریب اور نان شبینہ کی محتاج ہوتی تھی اور زرق برق لباسوں میں لپٹے حکمرانوں کی تجوریاں اشرفیوں سے بھری ہوتی تھیں اور وہ جس پر مہربان ہوتے اشرفیوں کی پوٹلیاں تھما دیتے۔ جدید جمہوریت نے حکمرانی میں فقر کا انداز اور تصور ریاست مدینہ سے لیا ہے۔ جس کے حکمران فقر وقناعت کا نمونہ بھی تھے۔ جہاں ہر ذمے دار اور عہدیدار جوب دہ تھا اور حکمران وقت سے قمیص کا حساب طلب کرنا نہایت آسان اور معمول کی کارروائی ہوتا تھا۔ یہاں خزانہ ایک مقدس اور قومی امانت کے طور پر موجود ہوتا تھا۔ جس میں خیانت کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہتوں کے رنگ ڈھنگ کے حامل نظام کو ہم نے جمہوریت کا نام دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت جاں بلب ہے۔ ہر حکمران ایک کائیاں اور چالاک معاشی جادو گر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ جو عالمی اقتصادی اداروں کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ کرکے وقتی طور پر ملکی معیشت کو آکسیجن ٹینٹ فراہم کرتا ہے۔ جس سے ملکی معیشت کی سانس کی ڈور تو چلتی رہتی ہے مگر اسے حقیقی استحکام حاصل نہیں ہوتا۔ جوں ہی حکومت ختم ہوتی ہے اور نئی حکومت ماضی کا رونا روتی چلی جاتی ہے۔ امیر سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ملک کا یوں غریب ہونا کہ اسے تھوڑے سے وقفے کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے کشکول پھیلانا لمحہ فکر ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں روپے کی قیمت بار بار گرائی جاتی رہی اور اب بھی قرض کی ایک قسط کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کی کشمکش جاری ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اب کی بار کشکول نہ پھیلایا جائے مگر پیٹ کہتا ہے کہ دل بھاڑ میں جائے۔ ملک کی حکمران اشرافیہ پر قدرت اسی طرح مہربان ہو، ان کے اثاثے یوں ہی بڑھتے اور پھلتے پھولتے رہیں، سوئس بینکوں میں ان کے دو سوارب ڈالر محفوظ مامون رہیں، دبئی کے ان کے بنگلے اور پلازے سدا سلامت رہیں، سنگاپور میں ان کی جائداد وسیع ہوتی جائیں آخر یہ سب ہمارے ہی ہم وطنوں کی ملکیت ہیں۔ اس سے جلنے اور حسد کرنے کی قطعی ضرورت نہیں بس ان سے ایک گزارش ہونی چاہیے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں تو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بھی اس گیدڑ سنگھی اور اس فارمولے کا استعمال کریں جو اقتدار کے چند برس میں انہیں فرش سے عرش تک پہنچانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔