ترکی میں اسلام پسندوں کی فتح

416

برادرملک ترکی کے صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب ایردوان نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ اس بار انہیں 54 فیصد ووٹ ملے ہیں اور ان کے مخالفین بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ حکمران جماعت پارلیمان میں بھی 350 نشستیں حاصل کر کے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ترکی کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 90فیصد رہا جو ترک جمہوریت کی طاقت کا مظہر ہے ۔ ایردوان کے مقابلے میں حزب اختلاف کے متحدہ امید وار کو کل 30 فیصد ووٹ ملے جس سے ایردوان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایردوان نے محض نعرہ بازی نہیں کی بلکہ ترکی اور ترک عوام کے لیے کام کیا ہے ،معیشت کو مستحکم کیا اور ایک عام ترک کی آمدنی میں تین گنا تک اضافہ ہوا ہے ۔ ایردوان نے ان علاقوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جہاں اکثریت ان کے مخالفین کی ہے مثلاً ازمیر ۔ وقت سے پہلے انتخابات کرا کے ایردوان نے نئی طاقت حاصل کر لی ہے اور اب وزارت عظمیٰ اور افواج کے سربراہ کا عہدہ بھی ان کے پاس رہے گا ۔ تمام اختیارات ایک ہی ہاتھ میں مرتکز ہونا خطرناک بھی ہو سکتا ہے اگر ان کا استعمال بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جائے ۔ ایردوان کی فتح اسلام پسندوں کی فتح قرار دی جا رہی ہے جس سے سیکولر عناصر خوف زدہ ہیں ۔ 1923ء میں ایک فوجی افسر کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔یہ عالم اسلام میں خلافت کی آخری نشانی تھی ۔ مصطفیٰ کمال پاشا کو اتاترک یعنی ترکوں کا باپ کہا گیا اور یورپ سمیت تمام اسلام مخالف طاقتوں نے کمال پاشا کی بغاوت کو سراہا اور دعویٰ کیا کہ ترکی یورپ کا مرد بیمار تھا جسے کمال پاشا نے زندگی بخشی ۔ خلافت کے خاتمے پر بر عظیم پاک و ہند میں بھی زبر دست تحریک خلافت چلائی گئی لیکن رائیگاں گئی ۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکی کا مسلم تشخص بالکل بدل کر رکھ دیا تھا حتیٰ کہ عربی رسم الخط بدل دیا ، قرآن کی تلاوت اور اذان پر پابندی لگائی گئی ۔ ترکی میں اصل اقتدار فوج کے ہاتھ میں تھا اور کچھ عرصہ پہلے تک فوج کا دعویٰ تھا کہ وہ سیکولر ازم کی محافظ ہے ۔ چنانچہ جو مسلم جماعتیں انتخابات جیت کر اقتدار میں آئیں ،مثلاً نجم الدین اربکان وغیرہ ، ان کو معطل کر دیا گیا۔ فوج نے ایردوان کے خلاف بھی بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی جس کو ایردوان نے عوام کی طاقت سے ناکام بنا دیا اور متعدد فوجی افسران گرفتار کر لیے گئے ۔ سیکولر ازم کا فتنہ مضمحل ضرور ہوا ہے لیکن اسلام دشمن طاقتوں کی شہ پر کبھی بھی سرا اٹھا سکتا ہے ۔ ایردوان کو بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی پارٹی کی جڑیں عوام میں مضبوط ہیں لیکن امریکا نے بھی ان کے سخت مخالف گولان کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے ۔ ایردوان کی وجہ سے ترکی امریکا کی گرفت سے آزاد ہو چکا ہے ۔ رجب طیب گزشتہ 24 سال سے ترک عوام کی خدمت کر رہے ہیں جب وہ استنبول کے مئر تھے ۔ پہلے کبھی ترکی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا مقروض تھا اب ترکی ان اداروں کو قرض دینے کی پیشکش کر رہا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو رجب طیب سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے بشرطیکہ وہ کچھ سیکھنا چاہیں ۔