منیر نیازی کا مجموعہ کلام سامنے تھا۔ ہم کچھ دیر بزمِ منیر میں گزارنے کے آرزو مند تھے۔ عرصہ گزر گیا تھا قوسِ قزح دیکھے۔ زندگی کے رنگوں سے آراستہ جذبوں کو معصومیت سے چھوئے۔۔۔
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس قدر مشکل نہ ہو
منیر نیازی نے عمر کے انجام پر آسودگی کی خواہش کی تھی لیکن ہمارا حکمران طبقہ، ہماری اشرافیہ، آئندہ اسمبلیوں میں جانے کی خواہش مند اور ہمارے مستقبل کے حکمران تادیر زندگی کا ایک ایک لمحہ آسودگی ہی میں نہیں عیش وعشرت میں گزارنا چاہتا ہے۔ اثاثوں کا کھل کر اظہار آج کل ہمارے الیکشن امیدواران کے لیے شرمندگی اور مشکل کا باعث بنا ہوا ہے۔ جسے دیکھو اثاثے چھپانے میں مصروف ہے۔ عمران خان اور عزیزی بلاول کے پاس سفر کرنے کے لیے کوئی گاڑی ہی نہیں ہے۔ عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ 8لاکھ روپے فی گھنٹے کے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر عمرے کا شرف حاصل کیا۔ ایک کروڑ سے زاید میں وہ اپنی نئی ’’جان عزیز‘‘ کو اس اللہ کے گھر کے پھیرے لگوا کر واپس لائے جس اللہ نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ جتنے پیسوں میں عمران نے عمرہ کیا ہے اتنے پیسوں میں تو بادشاہوں کے استعمال جیسی دوتین گاڑیاں آسکتی تھی۔ کم از کم ایک تو آہی جاتی۔ ہمیں گاڑیوں کی قیمت کا کوئی زیادہ پتا نہیں ہے۔ عزیزی بلاول بھی بنا کار ہی پاکستان میں کھچے کھچے پھرتے ہیں حالاں کہ ان کے والد نامدار کے استعمال میں چھ چھ بلٹ پروف کاریں ہیں۔ ایک آدھ والد صاحب سے مانگ لیتے۔ کیا حرج تھا۔ ویسے جتنے اثاثے بلاول نے ظاہر کیے ہیں اتنے میں تو کئی قیمتی کاریں لینے کے بعد بھی ان کے پاس شادی کے لیے پیسے بچ جائیں گے۔ پہلے کارپوریشنیں اتنی تن دھی سے مرے ہوئے کتے اور کچرا نہیں اٹھاتی تھیں جتنی تن دھی سے آج کل بڑی سیاسی جماعتیں ان امیدواروں کو اٹھا رہی ہیں جو الیکشن جیتنے کے قابل ہیں۔ پھر ان امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے پہلے پارٹی فنڈ کے نام پر ان سے کروڑوں روپے بطور بھتا بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی امیدواروں سے عمران خان اور بلاول فیض حاصل کرسکتے تھے۔ یہ تو ہم نے ایسے ہی لکھ دیا ورنہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین آج بھی بلاول اور عمران کی ایک ایک ادا پر کروڑوں نچھاور کرنے پر تیار ہیں۔
ہم حیران ہیں جس امیدوار کے اثاثے دیکھو اربوں میں۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ امیدوار بہت کچھ ظاہر کرنا بھول گئے ہیں۔ سابق ڈاکٹر جناب عامر لیاقت بیوی ظاہر کرنا ہی بھول گئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ موصوفہ ان کی دوسری بیوی ہیں۔ پہلی بیوی اور پہلی محبت تو بھلانے کی کوششوں کے باوجود نہیں بھولتیں۔ پہلی بیوی شوہر کی پاس بانی کرتی ہے جب کہ دوسری بیوی کی شوہر پاسبانی کرتا ہے۔ دغا اور وفا کے قصے چہار درویش کے زمانے ہی سے جاری ہیں۔ وفا کے لیے کتے اور دغا کے لیے عامر لیاقت مشہور ہیں۔ ایم کیو ایم سے لے کر جیو اور میر شکیل الرحمن تک شاید ہی عامر لیاقت کو کوئی یاد ہو۔ لیکن یوں بیوی بھلانا!!!
جس سے دو بیویاں بھی یاد رکھی نہ گئیں
اس سے کیا خاک میرے گھر کی حفاظت ہوگی
ہم کہ اپنی قلیل سی تنخواہ کی بروقت ادائیگی کے لیے اہل جسارت کے سامنے للکتے بلکتے رہتے ہیں الیکشن کے امیدواروں کے اثاثے پڑھ پڑھ کر حیران ہیں۔ یا خدا اتنا پیسا! کیسے گنتے ہوں گے۔ ویسے پیسا گننا اب کوئی مسئلہ نہیں۔ ایسی مشینیں آگئی ہیں جو منٹوں میں لاکھوں کروڑوں گن دیتی ہیں۔ حساب کی وہ ذمے داری نہیں لیتیں خصوصاً اُخروی حساب کی۔ غالباً بلوچستان کے کوئی وزیر تھے ان کے گھر چھاپا مارا گیا تھا تو اتنی کثیر نقد رقم برآمد ہوئی تھی کہ گنتے گنتے مشینیں بھی گرم ہوگئیں۔ ہمارے شرجیل میمن کے گھر سے ملنے والی رقم کی بھی سنا ہے کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ پاکستان میں فوج کی حکومت ہوتی ہے تو اس کو آمریت کہتے ہیں اور اہل سیاست کی جمہوریت ہو تو اس کو کرپٹ حکومت کہتے ہیں۔ سیاست دانوں کی حکومت کو اصل میں اثاثوں کی حکومت کہنا چاہیے۔ یہ اثاثے ہی ہوتے ہیں جو امیدواروں کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں جانے کا ذریعہ اور اقتدار کے ایوانوں میں جانے کی وجہ ہوتے ہیں ورنہ کسے غرض پڑی ہے کہ دو دوٹکے کے لوگوں کے منہ لگے۔ اثاثوں کے معاملے میں ہمارے فوجی بھائی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ بلڈی سویلین سے آگے ہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پچھلے دنوں کہا تھا نیب نے سب سے زیادہ فوجیوں سے پھر بیورو کریٹ سے اور سب سے کم سیاست دانوں سے پیسے برآمد کیے ہیں۔
کسی زمانے میں محترمہ بے نظیر نے مولویوں سے کہا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ متحدہ مجلس عمل کے قائدین سے ہماری درخواست بھی یہی ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ اثاثوں کے بل پر تو ان کا اسمبلیوں میں پہنچنا ممکن نہیں۔ یہ 70یا اس کے بعد کی دہائی نہیں ہے جب بوریا نشین بڑے بڑے سرمایہ داروں کو شکست دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جایا کرتے تھے اور ہر بات میں حکومت کی کتے جیسی کردیتے تھے۔ بھٹو جیسا چالاک آدمی بھی ان کے آگے ماند پڑ جاتا تھا۔ اب 2018 میں اقتدار تک رسائی بنا بھاری بھرکم اثاثوں کے ممکن نہیں۔ ایسے میں اقتدار پر قبضہ ہی واحد راستہ ہے۔ ہر سیاست دان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ وہ بہت معصوم ہے، بہت سادہ ہے۔ الیکشن کے ایک امیدوار سے کہا گیا کہ جناب ہمارے علاقے میں کوئی میٹرنٹی ہوم نہیں ہے۔ اس نے فوراً کہا ’’آپ فکر نہ کریں ہم جیت گئے تو دو دومیٹرنٹی ہوم بنوائیں گے۔ عورتوں کے لیے الگ، مردوں کے لیے الگ۔‘‘ امیدواروں کی سادگی کے اس اظہار کو اثاثے کھا گئے۔ اثاثے ظاہر ہوتے ہی امیدوار کی حقیقت بولنے لگتی ہے۔ مظفر گڑھ کے ایک امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل سامنے آئی تو بڑے بڑوں کی چیں بول گئی۔ مظفر گڑھ سے آزاد امیدوار میاں محمد حسین منا شیخ کے اثاثے اصل شیخوں سے ذرا ہی کم ہوں گے۔ چار کھرب تین ارب گیارہ کروڑ۔ نہ جانے مظفر گڑھ میں کون سے چاند ستاروں کی گنگا بہتی ہے جسے سپلائی کرکے وہ اتنے مالدار ہوگئے اور جب اتنے مالدار ہوگئے تو الیکشن کی خواری میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
اثاثے کثرت کی خواہش اور مزید کی تمنا کا اظہار ہیں۔ ہارون رشید کے وزیر یحییٰ برمکی نے کہا تھا ’’نفسانی خواہشات کو ترقی دینے والا کسی دوسری ترقی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‘‘۔ جن لوگوں کی نفسانی خواہشات کا یہ عالم ہو کہ وہ اربوں کھربوں کی شکل اختیار کرلیں وہ نفسانی خواہشات کیا ملک کی ترقی اور غریبوں کی فلاح کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں۔ الیکشن میں حصہ لیں یا نہ لیں،کا میاب ہوں یا ناکام، اثاثے والے ترقی کے آسمانوں پر ہیں لیکن ملک اور اس کے عوام ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘‘ کی تصویر۔ ۔۔۔ آدمی کے پاس کتنے کان ہونے چاہئیں کہ وہ لوگوں کی چیخیں سن سکے اور کتنی اموات ہونی چاہیے کہ اسے علم ہو سکے کہ بہت زیادہ لوگ زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ مگر یہ حکمران! مگر یہ اثاثے والے!!!