ڈاکٹر نذیر احمد شہید۔ چند یادیں

517

برادرم میاں منیر احمد نے اپنے 16 جون کے کالم میں ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی انقلابی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی سیاسی جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔ کالم پڑھ کر ان کے ساتھ تعلق کی بہت سی یادیں ذہن کے اُفق پر جگمگانے لگیں۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید واقعی عوامی لیڈر تھے، بالعموم کھدر کا لباس پہنتے اور کاندھے پر کھدر کی چادر رکھتے تھے۔ نکلتا ہوا نور بولتی ہوئی آنکھیں، چہرے پر خوبصورت ڈاڑھی، گفتگو کرتے تو مخاطب کو مسحور کردیتے۔ وہ ہومیوپیتھی ڈاکٹر تھے، ڈیرہ غازی خان میں ان کے کلینک پر مریضوں کا ہجوم رہتا تھا کیوں کہ ان میں سے بیشتر کا وہ مفت علاج کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور آتے تو انہیں واپسی کی جلدی ہوتی تھی، کہتے تھے مریض میرا انتظار کررہے ہوں گے۔ ان کے ہاتھ میں شفا تھی اور ایک خلقت ان پر ہجوم کیے رہتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ غریبوں کے مسیحا تھے، وہ صرف ان کا علاج ہی نہیں کرتے تھے، دامے درمے بھی ان کی مدد کرتے تھے۔ یہ 1970ء سے بہت پہلے کی بات ہے۔ ہم اُن دنوں ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ سے وابستہ تھے۔ شوریٰ کا اجلاس ہوتا تو سابق مشرقی پاکستان سے بھی جماعت کے لیڈروں کی ایک کھیپ شرکت کرتی تھی۔ بنگالی لہجے میں ان کی ملیح اردو سن کر اور ان کا انٹرویو کرکے بڑا لطف آتا تھا۔ جب کہ ڈیرہ غازی خان کے ڈاکٹر نذیر احمد سے خاصی بے تکلفی تھی، وہ مدیر ایشیا ملک نصر اللہ خان عزیزؔ کے عقیدت مند اور مدیر منتظم چودھری غلام جیلانی (ممتاز افسانہ نگار جیلانی بی اے) کے دوستوں میں شامل تھے اور اسی حوالے سے انہوں نے ہمیں بھی اپنی مشفقانہ دوستی کی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر 5اے ذیلدار پارک اچھرہ میں تو ان سے ملاقات ہوتی ہی تھی وہ ایشیا کے اسٹاف سے ملنے شاہ عالم مارکیٹ میں ایشیا کے دفتر بھی آپہنچے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایڈیٹر کے کمرے میں بیٹھنے کے بجائے عوامی انداز میں خوش نویس (کاتب) کے تختے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور ہم سب لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے، پھر چائے کا دور چلتا، مزے مزے کی باتیں ہوتیں، جیلانی صاحب کے قہقہے گونجتے اور ڈاکٹر صاحب لطف لیتے رہتے۔ ملک نصر اللہ عزیزؔ اپنی پیرانہ سالی کے سبب ایشیا کے دفتر بہت کم آتے تھے۔
1970ء میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہوا تو جماعت اسلامی اس وقت مغربی پاکستان کی ایک مقبول جماعت تھی۔ شوکت اسلام کے بے مثال جلوس نے سیکولر جماعتوں پر لرزہ طاری کر رکھا تھا لیکن پاکستان کی بیورو کریسی نے سارا کھیل اُلٹ کر رکھ دیا۔ یہ مغالطہ بڑی شدت سے پھیلایا گیا ہے کہ 1970ء کے انتخابات نہایت صاف و شفاف تھے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کرپٹ ترین انتخابات تھے جس میں مشرقی پاکستان کی بیورو کریسی نے عوامی لیگ کو جتوانے کے لیے تمام حربے اختیار کیے اور مغربی پاکستان میں یہی کام نسبتاً چھوٹے پیمانے پر پیپلز پارٹی کے حق میں کیا گیا۔ بہرکیف یہ الگ موضوع ہے۔ ہم پھر ڈاکٹر نذیر احمد کی طرف پلٹتے ہیں، جماعت اسلامی نے ڈیرہ غازی خان میں ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو یہ حلقہ لغاری خاندان کا آبائی حلقہ تصور کیا جاتا تھا اور لغاری سرداروں کو زعم تھا کہ انہیں کون ہرا سکتا ہے لیکن جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو علاقے کے غریب عوام اپنے مسیحا کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر صاحب کے انتخابی جلسوں نے وہ رش لیا کہ لغاریوں کو پسینے آگئے۔ پولنگ ہوئی اور نتیجہ نکلا تو لغاری سردار عوامی سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا تھا اور ڈاکٹر نذیر احمد حیران کن لیڈ کے ساتھ وکٹری اسٹینڈ پر کھڑے تھے۔ 1970ء کے انتخابات پاکستان کے لیے ایک المیہ ثابت ہوئے۔ مشرقی پاکستان شدید خون خرابے کے بعد بنگلا دیش بن گیا اور باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی ہوسِ اقتدار پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد بھٹو کی فسطائیت کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔
ایم این اے بننے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کی اپنائیت اور محبت میں کوئی فرق نہ آیا۔ لاہور آتے تو ایشیا کے دفتر میں بھی حاضری دیتے اور سب کو گلے لگا کر ملتے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے نتیجے میں پاکستان کے 90 ہزار فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں تھے اور مغربی پاکستان کا بھی کچھ علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ بھٹو قیدیوں کی رہائی اور علاقے کی واگزاری کے لیے بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے بھارت جانا چاہتے تھے اس کے لیے وہ قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھتے تھے۔ چناں چہ اس کے لیے قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ اجلاس میں ابھی کئی دن باقی تھے کہ ڈاکٹر صاحب لاہور آئے شاید مجلس شوریٰ کا اجلاس تھا۔ ایشیا کے دفتر میں اُن سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ بھٹو بھارت سے مذاکرات کے لیے شملہ جارہے ہیں، قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہے، میں بھی تقریر کروں گا، اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لیے تم بھی ساتھ چلو۔ راقم نے عرض کیا کہ اس کے پاس تو پریس گیلری کا کارڈ ہی نہیں ہے وہ کیسے اسمبلی کے اندر داخل ہوسکے گا، بولے کوئی بات نہیں میں وزیٹرز گیلری کا کارڈ بنوادوں گا تم ضرور آؤ۔ جیلانی صاحب نے بھی کہا کہ تمہیں اجلاس کور کرنا چاہیے۔ چناں چہ ہم بھی ڈاکٹر صاحب کے پیچھے پیچھے اسلام آباد پہنچ گئے، اُن دنوں قومی اسمبلی کا ؂
اجلاس اسلام آباد میں اسٹیٹ بینک کی عمارت میں ہوا کرتا تھا۔ پارلیمنٹ ہاؤس ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے وزیٹرز گیلری کے کارڈ کا بندوبست کردیا اور اگلے دن ہم بھی اجلاس میں جا بیٹھے۔ قومی اسمبلی کے بیشتر اراکین اجلاس میں موجود تھے، بھٹو صاحب بھی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے، تقریریں شروع ہوئیں تو مقررین نے جنگی قیدیوں کی رہائی اور مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لیے مذاکرات کی حمایت کی اور بھٹو صاحب پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد کی باری آئی تو انہوں نے بھی مذاکرات کی حمایت کی اور وزیراعظم کو اپنے اعتماد سے نوازا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ کاٹ دار جملہ کہا ’’مسٹر پرائم منسٹر آپ مذاکرات کے لیے جا تو رہے ہیں اور قوم آپ پر اعتماد کا اظہار بھی کرتی ہے لیکن اگر آپ نے جنگی قیدیوں کی رہائی کے بدلے مسئلہ کشمیر پر کوئی سودے بازی کی اور کشمیریوں کے مفادات کے خلاف کوئی سمجھوتا کیا تو ہم آپ کو اسلام آباد ائرپورٹ پر نہیں اُترنے دیں گے۔ اجلاس میں سناٹا چھا گیا اور بھٹو صاحب کی پیشانی پر شکنیں پڑگئیں۔ خیر بھٹو صاحب مذاکرات کے ذریعے جنگی قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کرکے واپس آگئے اور بات آئی گئی ہوگئی، لیکن ان کے دل میں ڈاکٹر نذیر احمد کے خلاف گانٹھ پڑ گئی، بھٹو انتہائی منتقم مزاج لیڈر تھے وہ اپنوں کی طرف سے بھی اختلاف رائے برداشت کرنے کے عادی نہ تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر نذیر احمد کو نشانے پر رکھ لیا، یہاں تک کہ انہیں ان کے کلینک میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد راقم کو سردار شیرباز مزاری سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے ہمارے علاقے میں سیاست کی تاریخ بدل دی تھی اور ہم سرداروں کو بتا دیا تھا کہ عوامی سیاست کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد اپنے ربّ کے حضور سرخرو ہو کر پیش ہوگئے لیکن وہ دلوں میں اب بھی جگمگا رہے ہیں۔ رہے نام اللہ کا!