چودھری نثار کے مدمقابل کی گرفتاری

231

مسلم لیگ ن کے سب سے پرانے رکن اور میاں نوازشریف کے دیرینہ ساتھی چودھری نثار میاں صاحب سے روٹھ کر آزادانہ انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ ن لیگ کے پارلیمانی بورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے مقابلے میں کسی کو نہیں کھڑا کیا جائے گا۔ اس کو ایک مستحسن فیصلہ سمجھاگیا کہ 34 سال پرانے ساتھی کے لیے اتنا تو کرنا ہی چاہیے تھا۔ چنانچہ امیدواروں کی جو پہلی فہرست جاری کی گئی اس میں این اے 59سے کسی کو ن لیگ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ لیکن دو دن بعد ہی یہ فیصلہ تبدیل ہوگیا اور چودھری نثار کے مقابلے میں ن لیگ کا امیدوار میدان میں اتار دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس معاملے میں بھی ن لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک دھڑے کی رائے تھی کہ چودھری نثار کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔یہ رائے ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کی تھی۔ لیکن بڑے بھائی نواز شریف نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ گو کہ پارٹی کی صدارت شہباز شریف کے پاس ہے لیکن پارٹی نواز شریف کے پاس ہے۔ چودھری نثارنے گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے طویل گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ پارٹی سے ان کا کوئی اختلاف نہیں اور وہ اس کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے البتہ ان کا اختلاف نوازشریف کے ساتھ ہے جن کا بوجھ انہوں نے 34سال تک اٹھایا۔ اختلافات کی وجوہات بتانا انہوں نے یہ کہہ کر موقوف کردیا کہ ابھی کلثوم نواز کی طبیعت خراب ہے، بعد میں بتاؤں گا۔ ن لیگ سے محبت کے اظہارپر یہ رائے دی گئی تھی کہ ان کے خلاف الیکشن نہ لڑایا جائے۔ لیکن نوازشریف کا پول کھولنے کی دھمکی پر نوازشریف برہم تھے۔ میاں شہباز نے ٹیلی فون پر انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن بڑے میاں صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر چودھری نثار کئی بار دعوے کرچکے ہیں کہ ان کا حلقہ انتخاب چکری چونترہ صرف ان کا ہے، کسی پارٹی کا نہیں اور اس حلقے سے وہ آٹھ بار جیت چکے ہیں ، کوئی ٹکٹ لے کر آئے یا بغیر ٹکٹ، سب کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی ۔ نواز شریف نے یہ چیلنج قبول کرلیا ہے لیکن ن لیگ کے لیے یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ بہتر تھا کہ چودھری نثار کو کھلا چھوڑ دیا جاتا جس سے ممکن ہے کہ واپسی کے راستے کھلے رہتے۔ کئی دیگر پارٹیوں کی طرح ن لیگ میں بھی بغاوت کے آثار نمایاں ہیں اور کچھ لوگ پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں چلے گئے ہیں۔ بغاوت کی واضح مثال زعیم قادری کی ہے۔ وہ بھی ناراض ہو کر آزادانہ انتخاب لڑ رہے ہیں اور زعیم قادری کے گہرے روابط خانقاہی سلسلوں سے ہیں اسی لیے پیر حمید الدین سیالوی کو منانے کے لیے انہیں آگے کیا گیا تھا۔چودھری نثار علی خان کئی بار ظاہر کر چکے ہیں کہ ن لیگ کے کئی اہم ارکان ان کے ساتھ ہیں لیکن یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ پارٹی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ن لیگ نے چودھری نثار کے مقابلے میں این اے 59پر انجینئر قمر الاسلام کو ٹکٹ دیا تھا۔ نیب نے گزشتہ پیر کو قمر الاسلام کو گرفتار کرلیا۔ ان کے ساتھ صاف پانی کمپنی کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر وسیم اجمل کو بھی دھر لیا گیا۔ قمرالاسلام اور ان کے ساتھی کو صاف پانی اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس اسکینڈل میں شہباز شریف کا نام بھی ہے جو نیب میں پیش نہیں ہوئے۔ وہ کراچی میں انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ قمر الاسلام راجا 2013ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور پنجاب صاف پانی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل رہے۔ صاف پانی کمپنی بھی ان 56کمپنیوں میں شامل ہے جو مسلم لیگ کی حکومت نے اپنے قیام کے بعد ہی قائم کی تھیں اور ا ن تمام کمپنیوں کے خلاف نیب تحقیقات کررہی ہے۔ کمپنی کے کئی افسران پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ نیب کا اقدام درست ہو لیکن اس موقع پر قمر الاسلام کی گرفتاری سے شکوک و شبہات ضرور پیدا ہوں گے۔ اس گرفتاری پر چودھری نثار نے بھی اعتراض کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ اس سے انتخابات متاثر ہوں گے۔ یعنی چودھری نثار جیت گئے تو ن لیگ اور قمر الاسلام نتائج کو چیلنج کرسکتے ہیں کہ مدمقابل کو گرفتار کر کے مہم نہیں چلانے دی گئی چنانچہ نتیجہ منسوخ کیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسی لیے قمر الاسلام کو گرفتار کیا گیا ہے۔