انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش

297

الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواستیں مسترد کردی ہیں، پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور نگران وزیر اعظم ناصرالملک نے بھی وقت پر انتخابات کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انتخابات کا بروقت ہوجانا ہی ملک قوم کے حق میں ہے بصورت دیگر بڑی خرابی ہوگی۔ اگر انتخابات 25جولائی کو نہ ہوسکے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب ہوں گے اور کون سا وقت مناسب ہوگا۔ تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود کچھ عناصر کی خواہش ہے کہ انتخابات نہ ہوں، کم ازکم 25جولائی کو نہ ہوں۔بیرسٹر فروغ نسیم نے الیکشن کمیشن میں درخواست گزاری تھی کہ 25جولائی کو جنوبی پنجاب میں گرمی بہت ہوتی ہے چنانچہ انتخابات 2سے 5 ماہ تک کے لیے ملتوی کردیے جائیں۔ یعنی یا تو ستمبر میں ہوں یا دسمبر میں۔لیکن ستمبر میں سیلاب کا خطرہ رہتا ہے اور دسمبر میں جنوبی پنجاب اور بالائی علاقوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔ بالائی علاقوں میں برف باری کی وجہ سے گھروں سے نکلنا دشوار ہوتا ہے۔ تو پھر انتخابات کب کرائے جائیں، فروغ نسیم یہ بھی بتا دیتے۔ متحدہ قبائل پارٹی یہ مطالبہ کررہی ہے کہ فاٹا کے انتخابات بھی ایک ساتھ کرائے جائیں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ مطالبہ مسترد ہونے کے بعد اب عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سندھ کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی کہتاہے کہ انتخابات چار، چھ ماہ کے لیے ملتوی ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ممکن ہے کہ کل کو یہ کہہ دیا جائے کہ انتخابات نہ ہوں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کی شدید بیماری کی وجہ سے اپنی بیٹی کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کلثوم نواز کو صحت کاملہ عطا کرے لیکن حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ نواز شریف اور مریم بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہیں انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں ملا لہٰذا کلثوم نواز کی مکمل صحت یابی اور ان کی پاکستان واپسی تک انتخابات کی بات ہی نہ کی جائے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا نقشہ لیے بیٹھی ہے کہ آئندہ کون وزیر اعظم ہوگا۔ میاں صاحب نے خلائی مخلوق سے جس طرح ’’پنگا‘‘ لیا ہوا ہے اس کے پیش نظر مقتدر قوتیں کچھ اور ٹھانے بیٹھی ہیں ۔ آئندہ وزیر اعظم کو ئی بھی ہو، نواز شریف کے امکانات نظر نہیںآرہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ عام انتخابات میں کوئی پارٹی بھی ایسی اکثریت حاصل نہ کرسکے گی جس کی وجہ سے وہ مقتدر قوتوں کے لیے درد سر بن سکے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں میں اکھا ڑ پچھاڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ بعض سیاسی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں گمنام فون کے ذریعے ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری میں جانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے اہم رہنما باہم لڑائی میں مصروف ہیں اور کارکن ٹکٹوں کی تقسیم پر تقسیم ہوچکے ہیں ۔ خواتین تک ایک دوسرے پر ڈنڈے برسا رہی ہیں ۔ عمران خان کے متنازع فیصلوں سے تحریک انصاف کو خاص طور پر پنجاب میں نقصان پہنچا ہے۔ پیپلز پارٹی کچھ بھی کہے لیکن وہ صرف سندھ تک محدود ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تیاری کا یہ حال ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے سوا کسی پارٹی نے اب تک اپنا منشور پیش نہیں کیا۔ انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کا منشور ابھی پرنٹنگ پریس میں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنا منشور جولائی کے پہلے ہفتے میں جاری کرے گی اور مسلم لیگ ن اپنے منشور کے بارے میں لب بستہ ہے اور سارا کام زبانی ہو رہا ہے۔ عام انتخابات میں ایک ماہ سے کم رہ گیاہے۔ سیاسی پارٹیوں کو انتخابی منشور کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے یا وہ اسے فضول سمجھتی ہیں کہ اقتدار مل گیا تو منشور پر عمل کون کرے گا۔ بہرحال الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد انتخابات ملتوی ہونے کا امکان بہت کم رہ گیا ہے اور خدا کرے کہ یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوجائے۔