چیف جسٹس کی کارروائیوں پر بے چینی کیوں؟

243

ملک میں عام انتخابات کے لیے اب ایک ماہ سے کم دن رہ گئے ہیں ہر سیاسی جماعت کی طرف سے انتخابات کی مہم کا جوش بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے جب کہ عام ووٹروں کی طرف سے اپنے سابقہ نمائندوں کا سخت احتسابی عمل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں کسی نے بہت خوب کہا کہ: ’’انتخابات تو سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہورہے ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ کامیاب چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار ہورہے ہیں‘‘۔
یہ تو ایک مذاق کی بات تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ جن مسائل کو سیاست دانوں اور انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں کو حل کرنا چاہیے وہ تمام ہی معاملات اور مسائل پر ہماری آج کی عدلیہ نوٹس لے رہی ہے۔ ملک کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار گزشتہ تین ماہ سے دوران عدلیہ کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ وہ عوام کو ان کا حق دلانے کے ساتھ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے بھی اقدامات کررہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں موجود عدالت نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا جس کے بعد نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ تخلیق کیا جس کے بعد عوام نے بھی جواب میں ’’ووٹرز کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کردیا۔ اس نعرے سے ووٹروں کے جوش میں اضافہ ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 5 سال بعد حلقے میں نظر آنے والے نمائندوں کا محاصرہ کیا جانے گا۔ میرا خیال ہے کہ نمائندوں کا اس طرح احتساب ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ اسی عمل کو سابق و مقتول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ قرار دیا۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا تسلسل رہا تو تبدیلیاں نظام ہی میں نہیں بلکہ معاشرتی امور میں بھی رونما ہوتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد کہا کرتے تھے کہ: ’’بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے‘‘۔
پاکستان کے لوگوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آمریت کے طویل ادوار دیکھنے کے بعد گزشتہ دس سال کے دوران بدترین جمہوری حکومتوں کو بھی دیکھ چکے۔ اس لیے انہیں آئندہ منتخب نمائندوں اور جماعت کو چننے میں آسانی ہوگی۔ جمہوریت کا یہ دس سالہ تسلسل مجموعی طور پر پاک فوج کے بہترین آئینی کردار کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔ مگر بدقسمتی سے کچھ لوگ آج بھی ہر اچھے برے کاموں کو اسٹیبلشمنٹ سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک نامناسب عمل ہے۔ لیکن اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ملک کے نظام کی بہتری کرپشن کے خاتمے، سرکاری اور سیاسی اداروں کو لگام دینے کے لیے ملک کے اہم ادارے ایک ٹیم ورک کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہ بات بہت تیزی سے پھیلائی جارہی ہے کہ عدلیہ کے بہترین اور آزادانہ اقدامات کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ موجود ہے۔ اگر ملک میں عوامی مسائل سمیت دیگر امور کے حل کے لیے عدلیہ آئیں کے مطابق کارروائی کررہی ہے تو یہ ملک و قوم کے لیے باعث مسرت ہے۔ لیکن سیاست دانوں نے جو کم ازکم دس سال مسلسل ’’آزادانہ جمہوریت‘‘ کا موقع ملنے کے باوجود ایسا کچھ نہیں کرسکے کہ جس کی مثال دی جائے۔ ایسے حالات میں عدلیہ کا خصوصاً چیف جسٹس پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے۔ باوجود اس کے کہ دو روز قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کو ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا ہے کہ: ’’ازخونوٹس کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ ہر نوٹس کے پیچھے وجہ ہوتی ہے۔ میں ملکی مسائل پر خاموش نہیں رہ سکتا‘‘۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اقدامات دراصل سیاست دانوں اور متعلقہ سرکاری ذمے داران کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ چوں کہ کوئی بھی اپنی مکروہ چہرہ دیکھنا نہیں چاہتا اس لیے ان کے نزدیک آئینہ توڑنا آسان ہے۔ کرپٹ سیاست دان خصوصی طور پر عدلیہ کے اقدامات اور احکامات کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہے۔ ان سیاسی عناصر کو ڈر ہے کہ اگر عدلیہ نے تمام ہی مسائل اور معاملات پر نوٹس لیکر اقدامات شروع کردیے تو پھر ان کی سیاست کو عوام مسترد کردیں گے۔ ایسے میں ان کی عرصے سے جاری سیاست کے نتائج کا انہیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ کامیاب بھی ہوتے رہے تو صرف اسمبلیوں تک محدود رہ جائیں گے اور انہیں مجبوراً ان کا اصل کام یعنی قانون سازی کرنا اور تالیاں بجانا رہ جائے گا۔ ایسا بھی نہیں کہ موجودہ عدلیہ عدالتی نظام کی بہتری کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ لاڑکانہ کے دورے کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیشن عدالت کا بھی دورہ کیا اور جج کی جانب سے عدالت میں موبائل کے استعمال کا بھی موقع پر نوٹس لیکر ان سے موبائل لیکر میز پر پٹخ دیا اور جج کا تبادلہ بھی کردیا۔
عام خیال یہ ہے کہ سیاست دانوں کو قانون سازی تک محدود رکھنے کے لیے بھی عدالت کو آئینی کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے تاکہ بہتر قوانین کے تحت ملک بہترین انداز میں آگے بڑھتا رہے۔