ترکی میں عثمانی تھپڑ

352

ترکی کے صدارتی انتخابات کا معرکہ طیب اردوان نے جیت لیا۔ طیب اردوان نے ترپن فی صد کے قریب ووٹ جب کہ ان کے قریب ترین حریف محرم انسے نے اکتیس فی صد ووٹ حاصل کیے۔ ان انتخابات کے ساتھ ہی ترکی میں نیا آئین نافذ ہو جائے گا جس کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔ رجب طیب اردوان سولہ سال ترکی کے منظر پر مختلف انداز سے چھائے ہوئے ہیں۔ وہ گیارہ سال تک ترکی کے وزیر اعظم رہے اور اب دوسری بار صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں بھی اکثریت حاصل کر لی ہے۔ ترکی کے انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب ستاسی فی صد رہا اور چھ کروڑ باشندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ طیب اردوان نے انتخابات سے ایک روز پہلے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بہت معنی خیز بات کی تھی۔ اپنے مخالفین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کل ہم انہیں عثمانی تھپڑ رسید کریں گے۔ طیب اردوان پر نظریات پالیسیوں اور حکمت عملی کے اعتبار سے ترکی کو عثمانی عہد میں واپس لے جانے کا الزام عائد کررہے ہیں اور طیب اردوان اس الزام پر شرمندہ ہونے کے بجائے اسے اوونر شپ دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے عثمانی خلافت کے عہد میں ترکی زیادہ مضبوط، باوقار اور خوش حال اور اپنی اقدار اور تہذیب سے قریب تر تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کو بہت محنت سے ترکی میں خلافت کو ختم کرنا پڑا۔ اس کی جگہ مصطفی کمال پاشا نے لی اور کمال پاشا نے ترکی سے عثمانی دور کے اثرات کھرچ کر اسے مغربی اقدار اور روایات سے آشنا کیا اور ترکی یورپی یونین کے دروازے پر مدتوں رکنیت کے انتظار میں کھڑا رہا۔ اپنی تمام تر جدیدیت اور لبرل ازم کے باوجود یورپ نے ترکی کو اپنے اس مخصوص اور برتر کلب میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی یہاں تک ترکی نے مایوس ہو کر یہ خواہش ہی ترک کر لی۔
مصطفی کمال پاشا کے بعد ترکی کو سیاسی استحکام نصیب نہ ہوسکا اور اس کی حکومتیں ڈولتی اور بنتی ٹوٹتی رہیں۔ نوے کی دہائی میں ترکی شدید معاشی بحران کا شکار ہوا۔ 1999 کے زلزلے نے حکومت کی نااہلی کو عیاں کر کے رکھ دیا۔ حکومت زلزلے کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی بحالی میں زیادہ فعالیت کا مظاہرہ نہ کرسکی اور یہی ترک عوام کی سوچ کا ٹرننگ پوائنٹ بنا۔ انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی طیب اردوان کی قیادت میں متبادل کے طور پر اُبھرتی چلی گئی۔ طیب اردوان نے ملکی معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیح اول بنایا اور جلد ہی وہ بیمار معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی معاشی پالیسیوں نے مڈل کلاس کو اُبھار کر مضبوط کیا۔ صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں بڑھانے کے ساتھ ساتھ میگا پروجیکٹس پر توجہ دی۔ اس معاشی تبدیلی اور استحکام نے طیب اردوان کو کمال اتاترک کے بعد جدید ترکی کا سب سے مضبوط راہنما بنایا۔ ترکی کے اس سفر کے آگے اسپیڈ بریکر نصب کرنے کے لیے فوج کے ایک چھوٹے سے گروپ نے مغربی طاقتوں کے ایماء پر خوفناک بغاوت کی۔ جس کا حتمی مقصد طیب اردوان کو جسمانی طور پر ختم کرکے ترک اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ ترکی کی فوج کے بڑے حصے اور عوام نے اس بغاوت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ترکی نے شاہراہ ترقی پر جو سفر کیا ہے یہ اس کو رول بیک کرنے کی بہت منظم کوشش تھی جسے عوامی طاقت نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ بغاوت ابھی جاری تھی کہ مغربی میڈیا نے اس کا جشن منانا شروع کر دیا تھا۔ ایک اخبار نے بہت طنزیہ سرخی جمائی تھی کہ طیب اردگان انگریزی میں گان کو چلے جانے کے انداز میں لکھا گیا تھا۔ مغربی میڈیا کی اس خوشی سے اندازہ ہورہا تھا کہ بغاوت کے ڈانڈے کہاں جا ملتے ہیں۔ بغاوت کی منصوبہ بندی کہیں ہوئی، بغاوت کو نظریاتی چھتری کہیں اور سے فراہم کی جا رہی تھی۔ یہ چھتری بھی امریکا میں محو استراحت جلاوطن ترک صوفی فتح اللہ گولن کی طرف سے فراہم کی گئی تھی۔
ناکام بغاوت نے طیب اردوان کو مزید مضبوط بنایا اور وہ حالات پر اپنی گرفت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب طیب اردوان کی قیادت میں ترکی غیر محسوس طریقے سے عالم اسلام کی قیادت کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ طیب اردوان کی کامیابی اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ وہ پوری جرات اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل بالخصوص فلسطین اور کشمیر پر بات کرتے ہیں۔ طیب اردوان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے رہے ہیں جسے بھارت مسلسل رد کررہا ہے۔ طیب اردوان کی کامیابی بلاشبہ کشمیری اور فلسطینی عوام کے ایک بین الاقوامی وکیل اور حامی کی کامیابی ہے۔ انتخابی نتائج ترک عوام کی بہترین سیاسی بصیرت کا واضح ثبوت ہیں۔