2018ء کے قومی انتخابات بلکہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات پر بھی شکوک واَوہام اور بدگمانیوں کے سائے منڈلاتے رہے ہیں، لیکن آخرِ کار سینیٹ کے انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوہی گئے، اگرچہ اُن کے بہت سے پہلوؤں پر سوالیہ نشانات اب بھی قائم ہیں۔ اُس کے بعد بھی سیاسی ذہن رکھنے والے جب بھی آپس میں ملتے، ایک دوسرے سے یہ سوال ضرور کرتے کہ آیا انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوں گے، یہ خدشات ذمے دار حلقوں کی یقین دہانیوں کے باوجود ذہنوں میں پیدا ہورہے تھے۔ اب الحمدللہ! انتخابی عمل شروع ہوچکا ہے، اُمیدوار میدان میں اتر چکے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے اکثر امیدواروں کو پروانۂ نامزدگی جاری کرچکی ہیں اور یہ عمل شاید ایک دودن میں مکمل ہوجائے گا۔ پھر امید واروں کی جانب سے اپنے نام واپس لینے کی تاریخ گزرنے کے بعد حلقہ وار حتمی فہرست شائع کردی جائے گی۔
بعض تجزیہ کاروں نے آنے والے قومی انتخابات میں خون خرابے کے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں، کیوں کہ یہ انتخابات انتہائی بے اعتمادی اور تناؤ کے ماحول میں ہورہے ہیں، گزشتہ حکمرانوں کے راستے میں جو کانٹے بوئے گئے تھے، شاید وہ آنے والے حکمرانوں کے پاؤں میں بھی چبھیں گے، فارسی کا مقولہ ہے: ’’چاہ کن را چاہ درپیش‘‘ یعنی جو دوسرے کے راستے میں کنواں کھودتا ہے، کبھی خود بھی اس میں گر پڑتا ہے۔ بے یقینی کے ماحول میں معیشت ساکت وجامد ہوجاتی ہے، سرمایہ دار سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے، کیوں کہ وہ غیر یقینی حالات میں اپنے سرمائے کو خطرے سے دوچار کرنا نہیں چاہتا، گزشتہ کچھ عرصے سے ہم تقریباً اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ نگراں حکومت کے لیے دو مہینے گزارنا مشکل ہورہا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان امریکن ڈالر کے انڈیمنیٹی بانڈ جاری کرنے کا پروگرام بنارہا ہے، یعنی قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’’مودیز‘‘ نے پاکستان کے ریٹنگ کی شرح کم کردی ہے، اگرچہ بحیثیت مجموعی پاکستانی معیشت کی شرح نمو (Growth Rate) کو قدرے اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ دیکھناہے کہ آنے والی حکومت اس مشکل سے نکلنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کرتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بیرون ملک پاکستانی شہریوں کے زَرِ مبادلہ اور اثاثوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لیے جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018ء جاری کی تھی، وہ ماضی کی اسکیموں کی طرح اطمینان بخش حدتک کامیاب نہیں ہوئی، حالاں کہ اس ترغیبی اسکیم میں اثاثے بدستور بیرون ملک رکھنے کی رعایت بھی فراہم کی گئی تھی۔ اس اسکیم کی ناکامی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سرمایہ داروں کو بدستور اپنے ریاستی نظام اور حکومتی وعدوں پر اعتماد نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر مُقتدر حلقے آنے والے قومی انتخابات کے شفاف اور غیر جانب دار ہونے کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں، لیکن اب ہمارے ملک میں یقین دہانیوں، وعدوں اور دعووں پر اعتماد کم ہی کیاجاتا ہے، بلکہ اِن سے شکوک میں اضافہ ہوتا ہے، کیوں کہ لوگ ماضی کے تجربات کی روشنی میں انگریزی کے اس مقولے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں:
’’Nothing is true, unless it is denied by the Government‘‘ یعنی کوئی بات سچ نہیں ہے تاوقتیکہ حکومتِ وقت اس کی نفی کردے۔ لہٰذا 25جولائی کے قومی انتخابات کا غیر جانبدار اور شفاف ہونا الیکشن کمیشن آف پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نگراں وفاقی وصوبائی حکومتوں کے عمل سے ثابت ہوگا۔ کسی حد تک قومی اور بین الاقوامی معائنہ کار اور میڈیا کی مشاہداتی رپورٹیں اور شواہد اس کا تعین کریں گے، کیوں کہ آج کل ’’لائیو کوریج‘‘ کے ذرائع بہت زیادہ وجود میں آچکے ہیں اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آیا ووٹر کے لیے پسِ پردہ اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے نام پر مہر لگانے کا نظام کسی CCTV کیمرے کی رینج میں تو نہیں ہے اور یہ کہ آیا خود ووٹر اپنے ووٹ کی پرچیوں کی موبائل تصویریں لے رہے ہیں یا نہیں، کیوں کہ یہ صورتیں انتخابات کی راز داری کو مُشتبہ بنادیتی ہیں۔ الغرض بہت کچھ عملی تجربے اور مشاہدے پر موقوف ہے۔ اسی طرح پوری قوم مشاہدہ کررہی ہے کہ میڈیا دینی سیاسی جماعتوں کو کوریج نہیں دے رہا، جب کہ لبرل سیاسی جماعتوں کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں، اس کی خدمات حاضر ہیں، کیا الیکشن کمیشن پاکستان کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ میڈیا کو کوریج میں انصاف برتنے کا حکم دے، کسی حد تک تو ترجیح اس کا حق ہے، لیکن دینی طبقے کی مکمل نفی یا بائیکاٹ سیاسی اعتبار سے سب کے لیے levelled Field یعنی یکساں مواقع فراہم کرنا کہلائے گا۔
ہم جیسے بے اختیار لوگوں کی خواہش تھی کہ کم ازکم بڑی قومی سیاسی جماعتیں آئندہ دس بیس سال کے لیے کسی جامع طویل المدتی ایجنڈے پر مُتّفق ہوجائیں، لیکن جب سیاسی عداوت ونفرت شخصی اور قبائلی عداوت کی روایت کو بھی پیچھے چھوڑ جائے، تو کسی مُتّفقہ قومی میثاق پر کلی یا اکثری اجماع ہونا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے اور ہم قومی اعتبار سے اسی کیفیت اور نوشتۂ دیوار سے دوچار ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف، جو نظریاتی سیاست اور تبدیلی کی دعوے دار تھی، کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر اس کے بعض مُحبین کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا حیرت کے سمندر میں ڈوب جانا بجائے خود باعثِ حیرت ہے۔ ہمارا قومی خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے اور ہماری خوبیاں اور خامیاں تقریباً مشترک ہیں، انیس بیس یا اٹھارہ بیس سے زیادہ فرق کی اُمید لگا لینا خوش فہمی یا سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں ہے یا کسی حدتک اپنی ذاتی محرومیوں اور خواہشات کے پورا نہ ہونے کا مظہر ہے۔ حقیقت پسندی کا شِعارہی بہتر ہے، اس سے انسان مایوسی اور قنوطیت سے بچ جاتا ہے اور ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کے دعوے کوئی حقیقت نہیں رکھتے، ہماری قومی سیاست کے بیش تر کھلاڑیوں کا نظریہ ایک ہی ہے یعنی ہر قیمت پر اقتدار میں شامل ہونا یا اس کے زیرِ سایہ رہنا ہے۔ یہ انتشار جو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر نظر آرہا ہے، اس کا ایک ٹریلر حکومت سازی کے موقع پر بھی نظر آئے گا اور پھر سب حالات سے سمجھوتا کرکے اسی تنخواہ پر گزارہ کریں گے اور اقتدار کی خیرات کے لیے کشکول پھیلائیں گے کہ شاید کوئی ریزگاری اُس میں بھی پڑجائے۔ حکومت سازی کے موقع پر ماضی کی طرح ضرورت پڑنے پر سیاسی جوڑ توڑ بھی ہوں گے، سیاسی قلابازیاں بھی دیکھنے میں آئیں گی، فلور کراسنگ بھی ہوگی، ان سب اقدامات اور یوٹرن یعنی رجعت معکوس کے لیے دلائل کا انبار بھی ہوگا اور ہم عربی محاورے کے مطابق ’’اَلآنَ کَمَا کَانَ‘‘ کے حیران کُن مناظر دیکھیں گے، یعنی یہ کہ آج بھی کل ہی کی طرح ہے، کچھ بھی تو نہیں بدلا، بلکہ بعض صورتوں میں تو نام اور چہرے بھی حسبِ سابق رہتے ہیں۔ منتخب لوگوں کو نئے سیاسی میک اَپ کے ساتھ آنے میں کوئی دشواری اور ندامت محسوس نہیں ہوتی، یہ لوگ Shame Proof یعنی ندامت سے عاری ہوتے ہیں، اقتدار کی چمک انہیں تازہ دَم رکھتی ہے، علامہ اقبال نے کسی اور کیفیت میں کہا تھا:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ اِنفعال کے
اِنفعال کے معنیٰ ہیں: اثر قبول کرنا، شعر میں اس کے مرادی معنیٰ ہیں: ’’اپنی غلطی پر نادم ہونا‘‘۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: (۱) ’’النَّدَمُ تَوْبَۃٌ‘‘ یعنی گناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور شرمساری ہی توبہ کی حقیقت ہے (کیوں کہ انسان اپنی غلطی پر شرمسار ہوتا ہے تو غیر مشروط معافی مانگتا ہے)، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔ (۲) ’’کَفَّارَۃُ الذَّنْبِ النَّدَامَۃُ‘‘یعنی گناہ کا کفارہ اللہ تعالیٰ کے حضور شرمساری ہے (کیوں کہ اسی سے گناہ کے اِزالے کی تحریک پیدا ہوتی ہے )، (مسند احمد) (۳) ’’فَإِنَّ العَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ، تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ‘‘ یعنی بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے اور پھر (اللہ تعالیٰ کے حضور شرمسار ہوکر) توبہ کرتا ہے، تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، (صحیح بخاری)‘‘، (۴) ’’عَیْنَانِ لَاتَمَسُّھُمَاالنَّارِعَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ یعنی ایسی دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جنہوں نے اللہ کی خشیت سے آنسو بہائے ہوں اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرا دینے کے لیے جاگتی رہی ہو، (سنن ترمذی)‘‘۔
الغرض علامہ اقبال نے کہا: ’’جب میں اپنے گناہوں پر شرمسار ہوا اور میری پیشانی پر ندامت کے باعث پسینے کے قطرات نمودار ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قیمتی موتی قرار دے کر اپنی رحمت میں سمیٹ لیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو بندے سے یہی مطلوب ہے کہ گناہوں پر نَدامت سے پسینہ نکل آئے یا آنکھیں ڈبڈبانے لگیں‘‘۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور یہ اعزازکسی کسی کو نصیب ہوتا ہے، ہم نے تو بحیثیتِ قوم غلطی پر ڈٹ جانے اور اس کا جواز (Justification) پیش کرنے کے شیطانی شِعار کو اختیار کر رکھا ہے، ایسے میں کون سی تبدیلی اور کہاں کی تبدیلی، بس گزارہ ہی کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے ہم نے کالم کا عنوان قائم کیا ہے: ’’آئیے ہم سب مل کر دعا کریں‘‘۔ ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ پوری قوم کو بصد عَجز ونیازسراپا التماس بن کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرنی چاہیے کہ 25جولائی کے قومی انتخابات کا مرحلہ امن وسلامتی اور خیر وعافیت سے گزر جائے، کوئی فساد برپا نہ ہو، کوئی خوں ریزی نہ ہو اور ان انتخابات کے بطن سے ملک وقوم کے لیے کوئی خیر کی صورت پیدا ہو۔ ہم جس معاشی اور سیاسی عدمِ استحکام سے دوچار ہیں، اس سے قوم کو نجات ملے، ہماری سیاست اور نظام مستحکم ہو، ہم خود اپنے آپ پر اور اپنے نظام پر اعتماد وافتخار کے قابل بن سکیں اور دنیا بھی ہم پر اعتماد کرسکے، ہمارا میڈیا روز سرِ شام اپنے ملک وملّت کا تمسخر نہ اڑائے، تذلیل نہ کرے، کوئی افتخار واعتباراور استناد کا پہلو دنیا کے سامنے پیش کرے، بیرونِ ملک پاکستانی ہر وقت اپنے میڈیا کو دیکھ کر کرب میں مبتلا نہ ہوں بلکہ اپنے آپ کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے سربلند وسرفراز محسوس کریں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مُقتدر اداروں کے دعوے کے مطابق یہ انتخابات واقعی صاف وشفاف اور غیر جانبدار نظر آئیں، اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ کریم ؐ کے طفیل ہماری دعا قبول فرمائے۔