جے یو آئی (ف) ہو شیار باش 

321

بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام ف کے اندر اختلافات آنے والے عام انتخابات پر بری طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخاب متحدہ مجلس عمل کے تحت لڑا جارہا ہے۔ بلوچستان میں جے یو آئی ف بڑی مذہبی جماعت ہے۔ ایک قوی پارلیمانی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ اگرچہ صوبے کے اندر ایم ایم اے بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ البتہ قابل غور منظر خود جے یو آئی ف کے اندر بگاڑ و انتشارکے ماحول کا ہے۔ ایک مضبوط جتھا جس کی رہبری مولانا محمد خان شیرانی کرتے ہیں، تنظیمی فیصلوں کی قبولیت پر آمادہ نہیں ہے۔ مولانا عبدالواسع جو 2002، 2008 کی اسمبلی میں صوبے کے سینئر وزیر رہ چکے ہیں۔ بنا بریں وہ گویا خود کو صوبے کا حاکم سمجھ بیٹھے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ان کی نہ بن سکی اور چار و ناچار حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنا پڑا۔ آخری وقتوں میں غیرعلانیہ طور پر حکومت کا حصہ بن گئے۔ اپنی مرضی سے اہم محکموں میں آفیسروں کے تبادلے کرادیے۔ یہاں تک کہ نگراں کابینہ میں بھی حافظ خلیل کو شامل کرایا، جو بعد میں مستعفی ہوگئے۔ وجہ تھی کہ اس شخص کی اہلیہ کو ایم ایم اے نے خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کے لیے نامزد کیا ہے۔ اور ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر ان کا نام ہے۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل 224 بی کے تحت نگراں کابینہ کے رکن کا کوئی قریبی رشتہ دار (بیوی، شوہر، بچے) انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں۔ گویا سبکی کا احساس دامن گیر نہ ہوا تھا، بلکہ استعفا بہ امر مجبوری دینا پڑا۔
مولانا عبدالواسع کے حلقہ پی بی تھری قلعہ سیف اللہ پر اس بار مولانا نور اللہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ یہ ایم ایم اے بلوچستان کے صدر بھی ہیں۔ اور جے یو آئی کے اُن ناراض لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے الگ ہوکر جے یو آئی نظریاتی کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی تھی۔ مولانا عصمت اللہ جے یو آئی نظریاتی کے امیر تھے۔ لمبے عرصے بعد ان کا انضمام ہوا۔ نظریاتی دھڑا اپنی جگہ رہ گیا۔ مولانا عصمت اللہ کی سرکردگی میں کئی رہنماء پھر سے جمعیت علمائے اسلام ف کا حصہ بن گئے۔ یہ سارے جے یو آئی کے بڑے دیرینہ لوگ ہیں۔ مولانا شیرانی دھڑے کے لوگ اب بھی ان کو انضمامی کہہ کر پکارتے ہیں یعنی طعنہ زنی کرتے ہیں۔ مولانا نور اللہ، صاحبِ حیثیت ہیں، ان کے خلاف اس گروہ کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس طعنے کے تحت مہم شروع کردی ہے چوں کہ مولانا عبدالواسع کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 257 قلعہ سیف اللہ کم ژوب کم شیرانی کا ٹکٹ دیا گیا ہے جس سے وہ بددل ہیں۔ چناں چہ اس نے متوازی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے۔ یعنی مولانا شیرانی کے ہم خیال ان جماعتی امیدواروں کو ہرانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں جنہیں صوبائی نظم کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ مولانا عبدالواسع کی تو کوشش ہی یہ ہے کہ کسی بھی طرح مولانا نور اللہ کامیاب نہ ہوں۔ اصل بات یہ کہنے جارہا ہوں کہ مولانا عبدالواسع نے عید الفطر سے غالباً دو روز قبل وفد کے ہمراہ کوئٹہ چھاؤنی میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ’’باپ‘‘ سے اپنے لوگوں کی کامیابی کے لیے تعاون مانگا۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں ان کی آئندہ بھی ملاقاتیں ہوں۔ شنید ہے کہ جے یو آئی کے اس دھڑے نے آزاد حیثیت سے بھی امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ یا شاید چند کو پارٹی نظم نے ٹکٹ بھی جاری کیے ہوں۔ مولانا عبدالواسع نے پشتون خوا میپ کے نواب ایاز جوگیزئی جو این اے 257 پر ان کے اور پی بی 3قلعہ سیف اللہ جے یو آئی (ایم ایم اے) کے مولانا نور اللہ کے مقابل انتخاب لڑرہے ہیں کو بھی در پردہ پیش کش کر رکھی ہے کہ نواب ایاز جوگیزئی ان کو قومی اسمبلی کے حلقہ پر ووٹ دلائیں اور وہ (مولانا عبدالواسع) اُسے صوبائی اسمبلی کی نشست پر ووٹ دلائیں گے۔
مولانا محمد خان شیرانی کے فلسفہ سیاست کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ دیانتدار بیوروکریٹ سے بہتر کام نکالنے والا ایک بد عنوان آفیسر ہوتا ہے۔ مجھے سول سیکرٹریٹ کے ایک سینئر آفیسر نے بتایا کہ بالخصوص دو ہزار دو اور آٹھ کی اسمبلیوں میں جے یو آئی کے چند با اثر وزراء نے بیوروکریسی کے اندر بد عنوانی کی حوصلہ افزائی کی۔ یقینی طور پر اس مکروہ عمل کے لیے جواز و حجت مو لانا شیرانی کا مذکورہ سیاسی فلسفہ ہی ہے۔ مولانا شیرانی کا دھڑا اپنے طور پر اپنے لوگوں کی کامیابی کے لیے بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں صوبائی یا مرکزی نظم کی پرکاہ برابر اہمیت نہ ہے۔ قیاس آرائیاں یہ بھی ہورہی ہیں کہ شیرانی کے زیر اثر کارکن اپنے رہنماؤں کی ہدایت پر ووٹ کا استعمال کریں گے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نیشنل پارٹی کے بعض سرکردہ لوگ بھی باپ سے رجوع کر چکے ہیں۔ اور دوسرا رخ دیکھیے کہ ابھی 24جون ہی کو حاصل بزنجو کہہ چکے ہیں کہ: ’’باپ کا بلوچستان میں کوئی کردار ہوسکتا نہ یہ کریکٹر کے حامل ہیں۔ پرانی (ق) لیگ کا نام تبدیل کرکے باپ رکھ دیا گیا ہے۔ اور جن لوگوں نے مسلم لیگ (ق) بنائی تھی انہی کی مہربانی سے ’’باپ‘‘ بنی ہے‘‘۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے بعض لوگ بھی ’’باپ‘‘ کے در پر دستک دے چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ دوسری جماعتیں بھی منت مانگنے اس دربار پہنچ جائیں۔ گویا باپ ان کے لیے ایک وسیلہ بن چکا ہے!۔ ایم ایم اے کا یہ عالم ہے کہ خضدار میں ضلع کی سطح پر جے یو آئی ف نے اس پلیٹ فارم سے سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی۔ اتحاد میں شامل کسی دوسری جماعت کا اعتماد اور رائے سرے سے ضروری ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ ایم ایم اے بلوچستان میں کتنی مؤثر اور نظم و تنظیم کی حامل ہے۔
سردار اختر مینگل کو مینڈیٹ چرائے جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ اشاروں کنائیوں میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پر نیش زنی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ: ’’مخصوص صف بندیاں ہورہی ہیں۔ کبھی فرماتے ہیں کہ مصنوعی جماعت صوبے پر مسلط کی جارہی ہے۔ یہ کہ باپ کے نام سے ایک پارٹی کو لاکر انتخابات کی تیاریاں ہورہی ہیں‘‘۔ سردار مینگل نے مینڈیٹ چرانے والوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ سردار مینگل اس تناظر میں کہتے ہیں کہ: ’’صوبے میں مخصوص صف بندیاں نئی بات نہیں۔ یہ ہر دور میں چلی آرہی ہیں۔ اور بلوچستان میں عوام کے حقوق کی بات کرنے والی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا۔ جس کی واضح مثال 1970ء اور 1999 کی حکومتیں ہیں جسے وقت سے پہلے سازشوں کا شکار بناکر گرایا گیا۔ نیز یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کسی کی حکومت کو کمزور نہیں کیا۔ نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمہوری عمل کا حصہ تھا اور عبدالقدوس بزنجو کی حمایت بلوچستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھ کر کیا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا پشتون خوا میپ، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے میں بی این پی نے ضرب نہیں لگائی؟ اگر ان کا یہ اقدام جمہوری عمل کا حصہ تھا تو کیا 1970 اور 1999 کی حکومتوں کا خاتمہ ماورائے آئین اقدام تھا؟ اور پھر محترم سردار اختر مینگل کو ’’باپ‘‘ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہی لوگوں کے ساتھ ملکر تو بی این پی نے نواب زہری کی حکومت کو چلتا کیا۔ ان کی صفوں میں شامل ہوکر بی این پی کے کہدہ بابر سینیٹر بنے۔ اور اب بی این پی کی فرزانہ بلوچ نگراں کابینہ میں وزارت بہبود آبادی، ترقی نسواں، سماجی بہبود اور اقلیتی امور کا قلم دان سنبھالے ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اگر اصول و نظریات کی ذرا بھی رمق باقی ہے، تو راستہ یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پشتون خوا میپ، بی این پی عوامی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف صوبے میں جاندار سیاسی و جمہوری روایات کی واپسی کی پر متفق ہوں۔ رہی بات بی این پی کی جس نے باپ کے لوگوں سے ملکر اتنا کچھ کرلیا تو انتخابات کے حوالے سے دستِ تعاون دراز کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ ویسے بھی باپ وسیلہ ظفربن چکا ہے۔ القصہ، جمعیت علماء اسلام ف کی قیادت ہوشیار رہے۔