’’میں الیکشن نہیں لڑوں گا‘‘

272

بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور اس کی منظوری کے باوجود اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن نہیں لڑیں گے اور مسلم لیگی امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم چلائیں گے۔ تاہم انہوں نے ذاتی ڈائری میں جو تاثرات درج کیے ہیں وہ خاصے حقیقت کشا ہیں ہم ان کی اجازت کے بغیر یہ تاثرات نذر قارئین کررہے ہیں۔
’’وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ میرے خلاف میاں نواز شریف کے دل کا غبار نہیں دھلا اور میرے مقابلے میں دوسرے امیدواروں کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ میں لوٹا ہوں، تحریک انصاف سے مسلم لیگ میں آیا ہوں اور لوٹوں کو ٹکٹ دینا مسلم لیگ کی پالیسی نہیں ہے۔ یہ کام صرف تحریک انصاف میں ہورہا ہے جہاں سب لوٹوں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں، مجھے یہ دلیل سن کر ہنسی آرہی ہے اور اپنے آپ پر رونا بھی آرہا ہے۔ میں تو شروع سے مسلم لیگی ہی تھا صرف چند ماہ کے لیے تحریک انصاف میں گیا تھا وہ بھی میاں نواز شریف کے رویے سے مایوس ہو کر۔ وہ خود تو جرنیل سے ڈیل کرکے خاندان سمیت جدہ چلے گئے تھے پیچھے میں نے پارٹی کو سنبھالا، اس کے لیے قربانی دی، جیل کاٹی، جسمانی اور ذہنی تشدد برداشت کیا۔ وہ ملک بدری کے بعد وطن واپس آئے تو اس خوف میں مبتلا تھے کہ شاید میں ان سے بڑا لیڈر بن گیا ہوں۔ وہ مجھے میری اوقات یاد دلانے کے لیے مجھے نظر انداز کرنے لگے، بات بات پر مجھ سے اختلاف کیا جانے لگا، میرے اندر مایوسی بڑھ گئی۔ اس دوران تحریک انصاف والوں نے مجھ سے رابطہ کیا بلکہ انہوں نے کیا رابطہ کیا ایک تیسری طاقت نے میرا ان سے رابطہ کرایا، مجھے بتایا گیا کہ نواز شریف کی حکومت عمران خان کے ایک دھرنے کی مار ہے، پھر امپائر کی انگلی اُٹھے گی اور عمران خان اقتدار سنبھال لیں گے۔ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ میں کون سی وزارت لینا پسند کروں گا، میں نے وزارت اطلاعات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ میڈیا سے میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں، صحافی میرا بڑا احترام کرتے ہیں، لیکن یہ سارا خواب ادھورا رہ گیا۔ عمران خان کا دھرنا طول کھینچتا گیا اور امپائر کی انگلی نے اُٹھنے کا نام نہ لیا تو میرا جسم جواب دے گیا، میں نے بھانڈا پھوڑ دیا اور میں تحریک انصاف پر دو حرف بھیج کر اس سے باہر نکل آیا۔ یہاں مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ عمران خان نے تحریک انصاف میں مجھے بہت عزت دی، اپنے بعد سینئر وائس چیئرمین کا عہدہ دیا، میری بات تحمل سے سنی اور میری علیحدگی کے بعد بھی انہوں نے میرے الزامات کے جواب میں خاموشی اختیار کیے رکھی‘‘۔
’’ہاں مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی کہ جب میں تحریک انصاف میں جانے کے لیے پَر تول رہا تھا اور میڈیا میں تواتر سے یہ خبریں گردش کررہی تھیں تو میاں نواز شریف کو مجھے نظر انداز کرنے کی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور انہوں نے مجھے منانے کی کوشش شروع کردی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے بیگم کلثوم نواز کو بھی مجھے منانے کے لیے میرے پاس بھیجا لیکن اس وقت تحریک انصاف کا بھوت میرے سر پر سوار تھا، میں نے کسی کو مان کر نہ دیا، جب آدمی کی قسمت گردش میں آئی ہو تو یہی ہوتا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے اور اسے کچھ سُجھائی نہیں دیتا، یہی میرے ساتھ بھی ہوا، اگر میں اس وقت مان جاتا بیگم صاحبہ کا مان رکھ لیتا تو مسلم لیگ میں میری عزت بڑھ جاتی اور مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن آئی کو کون ٹال سکتا ہے۔ بہرکیف مسلم لیگ سے میری جدائی چند ماہ سے زیادہ نہ تھی میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ جو لوگ آٹھ نو سال تک ڈکٹیٹر کے بوٹ چاٹتے رہے اس کے دست و بازو بنے رہے وہ نہا دھو کر میاں صاحب کے پاس آکھڑے ہوئے ہیں اور میاں صاحب ان پر قربان ہوئے جارہے ہیں اور میں جو ڈکٹیٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارتا رہا، میاں صاحب تو فوجی آمر سے ڈیل کرکے نکل لیے تھے صرف میں ہی تھا جو میدان میں ڈٹا ہوا تھا، آج اس وفاداری کا صلہ مجھے یہ دیا گیا ہے کہ مجھے الیکشن لڑنے کے بھی قابل نہیں سمجھا گیا۔ حالاں کہ مجھ میں ابھی بہت دم خم ہے، بڑے بڑے حریفوں کا پچھاڑ سکتا ہوں۔ تحریک انصاف سے نکلنے کے بعد میں مسلسل میاں صاحب کے حق میں بیان بازی کررہا ہوں، پاناما کیس کے فیصلے پر بھی میں نے شدید تنقید کی ہے، ججوں کو بھی للکارا ہے، میں نے انہیں چیلنج کیا ہے کہ وہ مجھ پر توہین عدالت کا مقدمہ چلائیں لیکن اس قدر پاپڑ بیلنے کے باوجود مجھے مسلم لیگ میں واپس لینے سے گریز کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ جب میاں صاحب ملتان میں جلسہ کرنے آئے تو ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کے مصداق میں بھی جلسے میں جا پہنچا اور مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ میاں صاحب نے گلے تو لگایا لیکن ان کے دل کی کدورت دور نہ ہوئی۔ اس کا اظہار ٹکٹوں کی تقسیم میں کھل کر سامنے آگیا ہے۔ میں نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کہیں گے تو الیکشن لڑوں گا ورنہ نہیں لڑوں گا، میں اپنے اس وعدے پر قائم ہوں اور بوجھل دل کے ساتھ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اب اپنی خوشیوں کا جنازہ خود اُٹھاؤں گا اور میاں صاحب کے نامزد کردہ امیدواروں کی انتخابی مہم چلاؤں گا۔ اس عمر میں میرے لیے یہی رسوائی مقدر تھی۔ میں اب کہیں اور نہیں جاسکتا، اس چوکھٹ پر جان دے دوں گا، میری وصیت ہے کہ میں مروں تو مسلم لیگ کے پرچم میں لپیٹ کر مجھے دفنایا جائے۔ اللہ میری لاج رکھنا۔