اس بظاہر شر میں نہ جانے خیر کا کون سا پہلو پوشیدہ ہے کہ پاکستانیوں اور جمہوریت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ اگلے الیکشن پاکستان کے غریب عوام کے روشن مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بنیں گے یا محدود اقلیت کی بالا دستی اور خلقِ خداکے ایک بڑے حصے کی محرومیوں کے حوالے سے یہ جمہوری مسافتِ لاحاصل اور بے نتیجہ رہے گی۔ یہی وہ سوال ہے ملک کے 22 کروڑ عوام کو جمہوریت کے حضور پیش کرتے ہوئے جس کا ٹھوس اور واقعاتی تجزیہ ضروری ہے۔
ایک موقع پر غالباً گزشتہ انتخابات کے موقع پر قمرالزمان کائرہ نے کہا تھا کہ نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم سے یہ احمقوں کی جنت آباد ہے۔ آج عملی طور پر نواز شریف الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں تاہم پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف ٹکٹوں کی تقسیم میں مصروف ہیں۔ جو لوگ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ان کی جو صورت حال سامنے آئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی بھی اپنی جماعت سے وابستگی نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہے سب کا مقصد محض اور محض اقتدار کے ایوانوں تک رسائی اور دولت کمانا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ نظریاتی وابستگی وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی جماعت کسی نظریے سے وابستہ ہو۔ آج مسلم لیگ ن ہو، تحریک انصاف یا پھر پیپلز پارٹی کوئی بھی جماعت کسی اعلیٰ نظریے کی علم بردار نہیں ہے۔ سب کا مقصد اولی جائز ناجائز بہر قیمت اقتدار کا حصول ہے۔ اس لیے کوئی بھی جماعت اقتدار کے ایوانوں میں بھیجنے کے لیے باکردار، مخلص اور اصول پسند کارکنان کو ٹکٹ دینے کے بجائے ان لوگوں کو ٹکٹ دے رہی ہے جو الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جو چور، لٹیرا اچکا، شرابی، زانی اور خائن الیکشن جیت سکتا ہے اسے ٹکٹ دیا جارہا ہے۔ ہر جماعت کا ایجنڈا اور منشور فریاد کناں ہے ’’اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا۔‘‘
نظریاتی وابستگی کے علاوہ کارکنان کے کسی بھی جماعت سے وابستہ ہونے میں شخصیت پر ستی کا ہمارے یہاں بڑا دخل ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی شخصیت تھے کہ ان کے کارکن ان کے دیوانے تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کے کارکنان کو بھٹو کے کیسے ہی عیب گنوائے جاتے حتی کہ پاکستان توڑنے میں ان کا کردار زیر بحث لایا جاتا کارکن ٹس سے مس نہ ہوتے۔ 70کے الیکشن میں یہ حال تھا کہ بھٹو نے کھمبے جیسی شخصیات کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا جن کے کام تو کجا نام سے بھی لوگ واقف نہیں تھے لیکن عوام نے ٹوٹ کر انہیں ووٹ دیے۔ بھٹو کے بعد شخصیت پرستی کا اگر کوئی حیران کن منظر سامنے آیا تو وہ الطاف حسین تھے۔ ان کی ایک آواز پر دس دس بیس بیس لاکھ کا مجمع جمع ہوجایا کرتا تھا۔ ایک صدا پر لاکھوں کے مجمع پر ایسا سکوت طاری ہوجایا کرتا تھاکہ پِن بھی گرے تو آواز گونج اٹھے۔ حالاں کہ وہ ایک خونیں عصبیت پر مشتمل ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔ انہوں نے سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ مہاجروں کی کون سی بستی، کون سا محلہ اور کون سا گھر ایسا تھا جہاں سے لاشیں نہ اٹھیں۔ پھر ان کی آواز، ان کی تقریر کا انداز، ان کی حرکات وسکنات بھی مضحکہ خیزاور حد درجے سطحی ہوتی تھیں لیکن ایم کیو ایم کے کارکنان ان کے دیوانے تھے۔ الطاف حسین نے جس پر ہاتھ رکھ دیا وہ نامور ہوگیا جسے ٹکٹ دے دیا وہ اسمبلی میں پہنچ گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی سے ہمدردی کی جو لہر چلی تھی اس میں پیپلز پارٹی کے پاس موقع تھا کہ وہ الیکٹ ایبلز سے بے نیاز ہوکر اچھے صاف ستھرے اور باکردار لوگوں کو
اسمبلیوں میں بھجوا سکتے تھے لیکن شاید ہی زرداری صاحب کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات آئی ہوگی۔ اس سے پہلے 1997کے الیکشن میں ایسا ہی ایک موقع نواز شریف کے پاس بھی تھا لیکن انہوں نے اس الیکشن اور آئندہ آنے والے ہر الیکشن میں الیکٹ ایبلز ہی کو ترجیح دی۔ عمران خان شہرت کی جن بلندیوں پر ہیں۔ ان کے کارکنان کی اکثریت ان پر جس طرح جان نچھاور کرتی ہے اس کے پیش نظر عمران خان اس پوزیشن میں ہیں کہ الیکٹ ایبلز کے چکر میں پڑے بغیر پارٹی سے وابستہ مخلص لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیج سکتے ہیں۔ لیکن جس بے دردی سے الیکشن میں کامیابی کو معیار بناکر انہوں نے ٹکٹ دیے ہیں ان کے کارکنان بنی گالہ کے دھرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسے میں شخصیت پرستی کا وہ عنصر بھی کہیں گم ہوگیا جو پارٹی قائدین کا اثاثہ ہوتا تھا۔ بھٹو، الطاف حسین، محترمہ بے نظیر کسی کو ٹکٹ دیں یا نہ دیں کسی کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ ان کے خلاف لب کشائی کرسکے آج یہ کیفیت بھی ختم ہوگئی ہے۔ ایک طرف زعیم قادری اور نہ جانے کون کون نواز شریف کے خلاف واہی تباہی بک رہے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان بھی عمران خان کے خلاف کھل کر اظہارخیال کررہے ہیں اور ان کے قابو سے باہر ہیں۔
ہر الیکشن سے کسی نہ کسی مفہوم میں امیدکا کوئی پہلو وابستہ ہوتا ہے۔ حالیہ الیکشن عجیب ہیں کسی کو ان کے بعد حالات سدھرتے اور ملک ترقی کرتا نظر نہیں آرہا۔ سوال یہ ہے کہ کون سے الیکشن کے بعد ملک کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ کون سے الیکشن کے بعد عوام کی تقدیر پھری ہے،کون سے الیکشن کے بعد غربت کے اندھیروں میں زندگی بتاتی پاکستانی عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوئے ہیں؟ یقیناًنہیں۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو حقیقی معنوں میں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہی کب دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں جمہوریت کو آزادی سے کام کرنے کے مواقع میسر ہیں کیا وہاں جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں کا میاب رہی ہے؟۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ گزشتہ 70برس سے عام انتخابات کے تواتر اور تسلسل کے بعد جمہوریت نے بھارت کی جو صورت گری کی ہے اس میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریت کا فیضان ہے کہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے ہیں عالمی تجارت میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے ہندوستان نے چین اور برازیل کی طرح ترقی کے بہت سے مراحل طے کیے ہیں لیکن یہ ترقی ہندستان کے لوگوں کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکی۔ ہندستان کے جمہوری نظام نے ایک اعلیٰ سطح کی Elite کلاس پیدا کی ہے اور اسے بے پناہ دولت فراہم کی ہے لیکن دنیا کی بائیس فی صد یعنی ایک ارب اکیس کروڑ کی ہندوستان کی آبادی میں سے تقریباً 85کروڑ افراد کو غربت کی سطح سے بھی نیچے غرق کردیا ہے۔ ہر سال ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ لوگ غربت اور قرضوں کی ذلت سے بچنے کے لیے خودکشیاں کررہے ہیں۔ عصمت فروشی وبائی صورت اختیار کرچکی ہے۔ بھارت کے ایک معروف ادیب اور صحافی سردار خشونت سنگھ نے کہا ہے کہ میں نے پاکستان کے متعدد دورے کیے ہیں اور وہاں کسی بھی شخص کو بغیر جوتے ننگے پاؤں نہیں دیکھا۔ ان کی یہ بات اس تناظر میں تھی کہ ننگے پاؤں چلتی پھرتی ہندوستان کی ایک بڑی آبادی لینڈ اسکیپ کا حصہ ہے۔ یہ بھی 65سالہ جمہوریت کا اعجاز ہے کہ ہندستان کے تقریبا 36کروڑ ساٹھ لاکھ شہریوں کو بیت الخلا سکی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ایک تہائی آبادی کو حاجات ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے تخلیہ میسر نہیں اور وہ کھلے عام رفع حاجت پہ مجبور ہیں جس کے مظاہرریل کی پٹڑیوں پر تا حد نظر دور تک دکھائی دیتے ہیں۔ جس جمہوریت کے لیے ہم اس قدر بے تاب ہیں کہ مرے جا رہے ہیں یہ ہے اس جمہوریت کا سب سے بڑا مظہر ہندوستان۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔