امریکا اور طاقت

385

زندگی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ بد اچھا اور بدنام برا ہوتا ہے۔ بد اچھا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی بُرائی مشتہر نہیں ہوتی اور بدنام اس لیے بدنام ہوتا ہے کہ بدنام میں برائی ہو یا نہ ہو اس کی تشہیر ایک برے انسان کے طور پر ہوجاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اشتہار کاری یا Advertising ایک نیا ’’فن‘‘ ہے حالاں کہ بد اچھا اور بدنام برا کا محاورہ بتاتا ہے کہ اشتہار کاری یا اشتہار بازی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ۔ اتفاق سے اس بات کا امریکا سے گہرا تعلق ہے۔
چنگیز خان انسانی تاریخ کا ایک بڑا عفریت سمجھا جاتا ہے حالاں کہ انسانیت سوزی اور خون آشامی کے حوالے سے دیکھا جائے تو امریکا کے آگے چنگیز خان کی حیثیت ایک دودھ پیتے بچے سے زیادہ نہیں۔ چنگیز خان کے بارے میں ایک بیاں یہ ہے کہ اس نے 80 لاکھ سے زیادہ انسان مارے۔ دوسرا بیان یہ ہے کہ اس نے دو کروڑ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا۔ دو کروڑ انسانوں کی لاشوں کے خیال سے بھی روح کانپ کر رہ جاتی ہے۔ مگر امریکا کے ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی معرکہ آرا تصنیف Dark Side of the democracy میں تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ امریکا کے سفید فاموں نے ریڈ انڈینز اور دوسرے مقامی افراد کے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے 7 سے 10 کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ امریکا کی ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے دس بارہ سال قبل برطانیہ کے ممتاز اخبار Guardian میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ سوسن سونٹیگ کے اس مضمون سے ہنگامہ ہوگیا۔ امریکا کے کئی سیاست دانوں نے سوسن سونٹیگ کو ’’غدار‘‘ قرار دیا مگر کوئی بھی ان کے دعوے کو نہ جھٹلا سکا۔ بدقسمتی سے سوسن سونٹیگ سرطان کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال کرگیا۔ ایسا نہ ہوتا تو امریکا میں ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا گیا ہوتا۔ اب آپ اندازہ کیجیے کہ کہاں چنگیز خان کے 2 کروڑ شکار اور کہاں بانیانِ امریکا کے 10 کروڑ شکار؟ مگر بد اچھا بدنام بُرا۔ چنگیز خان پر ساری دُنیا تھوکتی ہے اور امریکا کی خون آشامی اور انسانیت سوزی کا کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا۔
امریکا کے ایک اور ممتاز دانش ور ہیں۔ ہوورڈ زِن۔ انہوں نے بھی امریکا کے ماضی بعید اور ماضی قریب کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہوئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے: ’’A Peoples history of the united states‘‘۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہضم کرنا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر کوئی معقول شخص امریکا پر تھوکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کتاب میں جہاں ہوورڈ زن نے ریڈ انڈینز اور ’’Americas‘‘ کے باشندوں کے قتل عام کی تاریخ مرتب کی ہے وہیں سیاہ فاموں کے ساتھ سفید فاموں نے جو شیطنت روا رکھی اس کو بھی بیان کیا ہے۔ ہوورڈ زن نے امریکا کی سفاکی کو آشکار کرنے کے لیے دستاویزی شہادت کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی فوجوں نے جاپانی افواج کے درمیان ہونے والی پیغام رسانی کو پڑھنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس پیغام رسانی کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جاپانی ایک دوسرے کو بتارہے تھے کہ وہ ہتھیار ڈالنے ہی والے ہیں۔ اس کے باوجود امریکیوں نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں افراد کو ہلاک اور لاکھوں کو معذور کردیا۔ اسی لیے امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو بدمعاش ریاست یا Rogue State کہتے ہیں۔ امریکی ذہن اتنا غیر انسانی ہے کہ امریکا کے مفادات کے تحفظ کے لیے اگر اسے دو تین ارب انسانوں کو مارنا پڑ جائے تو امریکی ذہن ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچائے گا۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی تھی۔ شمالی کوریا ڈھائی کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور امریکی اپنی تاریخ کے آغاز میں 10 کروڑ انسانوں کو مار چکے ہیں۔ چناں چہ ان کے لیے ڈھائی کروڑ یا ڈھائی ارب انسانوں میں کوئی فرق نہیں
امریکیوں کی حالیہ تاریخ بھی خون آشام ہے۔ امریکا نے ویت نام میں مداخلت کی اور 10 لاکھ ویت نامیوں کو قتل کیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر جو اقتصادی پابندیاں عاید کی تھیں ان سے 5 لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ افراد غذا اور دواؤں کی قلت سے جاں بحق ہوئے۔ امریکا نے
صدام حسین کے دور میں عراق پر حملہ کیا تو امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 6 لاکھ افراد مارے گئے۔ بوسنیا ہرزیگووین میں سرب ساڑھے تین سال تک مسلمانوں کو قتل کرتے رہے اور جب وہ تین لاکھ مسلمانوں کو مار چکے تو امریکا نے مداخلت کی۔ شام میں پانچ لاکھ مسلمان مارے جاچکے ہیں اور امریکا صرف اس لیے بشار کو نہیں ہٹاتا کہ شام میں بنیاد پرست مضبوط ہوجائیں گے۔ امریکا 17 سال کے دوران افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ اتنی زیادہ ہلاکتوں پر امریکا نے آج تک معافی نہیں مانگی بلکہ اس نے معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔امریکا مسلمانوں کو پرتشدد اور دہشت گرد کہتا ہے حالاں کہ امریکا دہشت گردی اور تشدد سے بھرا ہوا ہے۔ جنیوا کے graduate institute of international and development studies کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا کے 133 ممالک میں عام افراد کے پاس 85 کروڑ ہتھیار ہیں۔ ان میں سے 39 کروڑ 30 لاکھ ہتھیار صرف امریکیوں کے پاس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں کا 40 فی صد امریکی گھروں میں موجود ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 19 جون 2018ء)
اتفاق سے یہ ہتھیار ’’خاموش‘‘ نہیں ہیں۔ امریکا کی gun violence association کے مطابق امریکا میں 2014ء سے 2017ء تک فائرنگ کے واقعات میں صرف ’’56,775‘‘ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں بارہ سال سے کم عمر کے 2710 بچے بھی شامل تھے۔ ان تمام واقعات کے علاوہ 22 ہزار افراد نے ہتھیاروں کے ذریعے خودکشیاں بھی کی ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا میں دنیا کے ہتھیاروں کا 40 فی صد پایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود امریکا ’’مہذب‘‘ بھی ہے، ’’پُرامن‘‘ بھی، یہاں تک کہ وہ ساری دُنیا کو تہذیب اور امن پر آئے دن لیکچر دیتا رہتا ہے۔ امریکا اپنی طاقت کی وجہ سے دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے اس کے باوجود اس کا سالانہ جنگی بجٹ 675 ارب ڈالر ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کے دفاعی بجٹ کے لیے مختص رقم اس سے بہت کم ہے۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ امریکا دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ چناں چہ دنیا کے تمام معقول افراد بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران دنیا میں جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ’’ایجاد‘‘ تھیں اور ان جنگوں کی وجہ یہ تھی کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگی صنعت زیادہ سے زیادہ فروغ پاسکے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتا ہے اور وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بناتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا مگر خود امریکا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید سے جدید تر بنائے جارہا ہے۔ اس کو کہتے ہیں دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔ اس حوالے سے امریکا کے قول و فعل میں ایسا تضاد ہے کہ شیطان بھی دیکھے تو اپنی شیطنت پر شرمندہ ہوجائے۔
بلاشبہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بحرو بر میں فساد برپا کر رکھاہے اور انسانیت کی تذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے مگر اب امریکا بحروبر کے بجائے خلا اور سیاروں کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کرنے کی تیاری شروع کرچکا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ائر فورس‘‘ کی طرز پر Space force قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم خلا اور سیاروں پر قبضے کے حوالے سے روس اور چین کی بالادستی کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف چاند پر امریکی پرچم اور امریکی قدموں کے نشانات دیکھنے کے خواہش مند نہیں بلکہ ہم خلا اور سیاروں پر امریکا کا غلبہ چاہتے ہیں۔ امریکا کے صدر کے اس بیان کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ذہن نے جس طرح زمین کو اپنی خون آشامی سے بھر دیا ہے اسی طرح وہ خلا اور سیاروں کو بھی اپنی ناپاک خواہشات اور ناپاک اقدام سے بھر دینا چاہتا ہے۔ امریکی ذہن کا بس چلے گا تو وہ سورج اور چاند کی روشنی پر بھی قابض ہوجائے گا اور کہے گا جو ہماری غلامی کرے گا سورج اور چاند کی روشنی صرف اس کے لیے ہوگی۔ جس طرح امریکا کے جوتے نہ چاٹنے والے ملکوں کی مالی امداد بند کردی جاتی ہے اسی طرح امریکا کی مزاحمت کرنے والوں پر سورج اور چاند کی روشنی حرام کردی جائے گی۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو امریکا کی روح بھی طاقت مرکز ہے۔ امریکا کا دل بھی، امریکا کا ذہن بھی طاقت کا طواف آیا ہے اور امریکا کا اجتماعی نفس بھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کے جس شخص کو امریکا سے نفرت نہیں اس میں تین عیب یقیناًموجود ہیں۔ یا تو وہ شخص جاہل مطلق ہے، یا بد باطن، یا پھر وہ شخص امریکی ہے۔