اہل اور نا اہل کا جھگڑا

274

عام انتخابات کی متعین تاریخ 25 جولائی میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں لیکن امیدواروں کی اہلیت اور نا اہلی کے معاملات اب تک طے نہیں ہوسکے۔ کوئی امیدوار ایک دن نا اہل قرار دیا جاتا ہے دوسرے دن وہ اہل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ بدھ کو ایپلٹ ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔ لیکن اگلے ہی دن فواد چودھری اہل ہوگئے اور عین ممکن ہے کہ شاہد خاقان بھی اہل ہوجائیں۔ انہوں نے اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے بارے میں ایپلٹ ٹریبونل کا فیصلہ ہے کہ وہ آئین کی شق 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے، انہوں نے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے چھپائے ہیں۔ یہ فیصلہ الیکشن ٹریبونل کے سربراہ جسٹس عباد الرحمن لودھی نے جاری کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس اتنے اثاثے ہیں کہ کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے اور جو اپنے اثاثے ظاہر کررہے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر عوام دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پانچوں حلقوں سے اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ ایک حلقے سے شاہد خاقان کے مقابل ہیں اور شاہد خاقان کی نا اہلی سے عمران خان کو ضرور فائدہ ہوگا۔ شاہد خاقان کو پہلے اہل قرار دینے پر این اے 57 کے ریٹرننگ افسر ایڈیشنل سیشن جج کو نا اہل قرار دے کر انہیں عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کے رہنما نثار کھوڑو اور منظور وسان بھی نا اہل ہوگئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی پر یہ اعتراض وارد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لارنس کالج کے جنگل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایف سیون 2 میں مکان کی قیمت بھی کم ظاہر کی گئی ہے۔ شاہد خاقان کا کہناہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ پٹیشن پر ٹریبونل کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تا حیات نا اہلی کا فیصلہ میری اپنی جماعت سے وفاداری کی سزا ہے، الیکشن ٹریبونل کے پاس تا حیات نا اہلی کا اختیار ہی نہیں۔ جہاں تک مکان کی قیمت کم ظاہر کرنے کا تعلق ہے تو ایسے کئی امیدوار ہیں جنہوں نے کروڑوں کی ملکیت کی قیمت چند لاکھ ظاہر کی ہے لیکن انہیں اہل قرار دیا گیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوکہ یہ بہت طاقتور لوگ ہیں اور ریٹرننگ افسر اُن پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ لیکن نثار کھوڑو اور منظور وسان جیسے لوگوں کا تعلق بھی تو سندھ کی مقتدر جماعت سے ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو نا اہل قرار دینے پر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے کہاہے کہ صرف ن لیگ کو نشانہ بنایا جارہاہے لیکن شاہد خاقان عباسی کے ساتھ فواد چودھری، نثار کھوڑو اور دوسری جماعتوں کے امیدوار بھی تو نا اہل قرار دیے گئے ہیں۔ فواد چودھری بری ہوگئے تو ممکن ہے کہ دوسرے بھی ہوجائیں۔ 25 جولائی تک کیا یہی کھیل چلتا رہے گا۔ مریم اورنگ زیب نے فوری طور پر پریس کانفرنس کرکے کہاکہ نیب صرف ن لیگ کے پیچھے پڑگیا ہے۔ قومی احتساب بیورو اب ن احتساب بیورو بن گیا ہے۔ لیکن چکوال سے عمران خان کے نئے کھلاڑی سردار غلام عباس بھی تو کھیل سے باہر ہوگئے ہیں۔ پی ڈی اے کے میرشاہنواز تالپور کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو نے کاغذات نامزدگی میں ایک بیوی ایک بیٹی اور 166 ایکڑ زمین چھپائی ہے تاہم دو بیویاں اور 4 بچے تو ظاہر کیے ہیں۔ ایک بیوی تو تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر اور ایک جج کے تبصرے کے مطابق بے ہودوں کے سربراہ عامر لیاقت نے بھی تو ایک بیوی چھپائی ہوئی ہے۔ اس کے کاغذات نامزدگی تو منظور ہوگئے حالانکہ وہ خلفائے راشدین کی توہین کا کھلے عام مرتکب ہوا ہے۔ تحریک لبیک کے سربراہ آصف اشرف جلالی کے کاغذات بھی مسترد ہوگئے۔ فواد چودھری نے بدھ کو اپنے کاغذات مسترد ہونے پر اپنا غصہ جسٹس عباد الرحمن پر نکالا کہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے چہیتے ہیں اور ان کے تقرر کی داستان سے بار اور وکلا بخوبی واقف ہیں۔ ایسے رد عمل پر ان میں اور مریم اورنگ زیب میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ اب جب کہ انہیں اہل قرار دے دیا گیا ہے تو اس پر ان کا تبصرہ کیا ہوگا۔ لگتا ہے کہ اہل اور نا اہل کا جھگڑا عدالت عظمیٰ تک پہنچ کر رہے گا۔ ویسے تو کسی کے رکن اسمبلی منتخب ہونے کے چار سال بعد بھی اسے نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ کیا اب بھی یہی ہوگا۔ کیا اس میں متعلقہ اداروں کی نا اہلی، چشم پوشی یا ذاتی پسند و نا پسند کا دخل ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی کو تا حیات نا اہل قرار دینے کا معیار کیا ہے اور اس کا اختیار کس کو ہے؟