کراچی پیرس نہیں مدینہ بنانا ہے

305

شہباز شریف‘ مسلم لیگ(ن) کے ایک متحرک رہنماء ہیں‘ چین نے انہیں پنجاب اسپیڈ کا نام دے رکھا ہے کہ سی پیک کے منصوبے وقت سے پہلے مکمل کیے‘ اچھی بات ہے‘ ہونا بھی یہی چاہیے لیکن کیا یہی کافی ہے؟ ہر گز نہیں کچھ اس سے بڑھ کر بھی کرنے کے کام ہیں‘ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مسلم لیگ کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے اور قائد اعظم کی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد کی بہت سی وجوہات ہیں‘ مسلم لیگ کو آج تک ان جیسا رہنماء نہیں مل سکا‘ البتہ مسلم لیگ کو انوشہ رحمن‘ پرویز رشید‘ آصف سعید کرمانی‘ ماروی میمن‘ زاہد حامد جیسے کردار بہت سے ملے اور یہی رویہ رہا تو مسلم لیگ میں ان لوگوں کی اکثریت ہوگی جن کے سیاسی اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جانے کے قابل ہوں گے ان لوگوں کے نزدیک مسلم لیگ کی نظریاتی سوچ‘ فکر‘ اٹھان اور ترجیحات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
برصغیر میں جب ایک الگ ملک کے لیے جدوجہد ہورہی تھی تو اس وقت مسلم لیگ کی قیادت نے کہا تھا نئے ملک کا نام پاکستان رکھنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا جس مقصد واضح تھا اور منزل بھی واضح تھی‘ اور کہا تھا کہ یہ ملک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم کیا جائے گا جہاں اقلیتیوں کو بھی اپنے دھرم کے مطابق اور مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق اورا ختیار حاصل ہوگا لیکن ریاست کا نظام مدینہ جیسا ہوگا جہاں امن ہوگا‘ عزت آبرو محفوظ رہے گی‘ کوئی کسی کی دیوار نہیں پھلانگ سکے گا‘ کاروبار کا حق ہر کسی کے لیے‘ مگر قانون کے اندر ہوگا‘ مذہبی آزادی ہوگی اس زمانے میں بھی دنیا میں اپنے وقت کی ترقی یافتہ ریاستیں تھیں‘ قیصر و کسریٰ کی تہذیب تھی‘ مدینہ کی ریاست نے ان تمام نظاموں کے خلاف قرآن کا مقدمہ اور پیغام پیش کیا اور اعلان کیا یہ تمام ریاستیں مدینہ کے تابع ہوں گی‘ اب دیکھیں شہباز شریف مسلم لیگی رہنماء ہیں‘ مسلم لیگ کانظریاتی پیغام پھیلانے کا دعوی بھی کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ کراچی کو پیرس بناؤں گا ضرورت تو یہ ہے کہ کراچی اور پاکستان کو مدینہ بنایا جائے‘ جہاں امن ہو‘ اور ہر کسی کے لیے زندگی گزارنے کا محفوظ حق ہو‘ اہل پاکستان اور کراچی کے باسیوں کو بھی لندن چاہیے نہ پیرس‘ ہمیں تو پاکستان چاہیے اور اسلامی پاکستان چاہیے ایک خوشحال پاکستان چاہیے مسلم لیگی کہتے ہیں کہ شہباز شریف گزشتہ دس سال سے صوبہ پنجاب کے کامیاب وزیر اعلیٰ چلے آرہے ہیں‘ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض یہ ہے کہ پاکستان کو پاکستان کب بنایا جائے گا یہ کام کسی نے نہیں کیا‘ ایوب خان بھی آئے‘ ضیاء بھی آئے‘ بھٹو‘ بے نظیر اور نوازشریف‘ جنرل مشرف بھی رہے‘ شجاعت حسین اور شوکت عزیز بھی اپنی باری لے چکے ہیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے کچھ کیا ہو۔
آئین کے آرٹیکل اکتیس کو ہر حکمران نے غلاف میں لپیٹ کر رکھا کہ اسے ہوا نہ لگ جائے‘ یہ آرٹیکل کہتا ہے پاکستان میں قرآان و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا‘ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی اٹھا کر دیکھ کر ہر قانون انگریز کے بنائے ہوئے قانون کی توسیع ہے پھر بھی دعویٰ ہے کہ 1947ء میں آزادی وطن کے بعد سے شہباز شریف ہی واحد شخصیت ہیں جن کو پنجاب کے اتنے عرصہ محبوب وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مسلم لیگ کے نزدیک وہ اپنی زرخیز خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر اور پاپولر مسلم لیگی رہنما ثابت ہوچکے ہیں وہ عوامی مسائل سے نمٹنے کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں پنجاب نے دیگر تینوں صوبوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ ہو کر ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کی ہے۔ پنجاب کے عوام کو تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور سفری سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے اعلیٰ درجہ کے تعلیمی ادارے، علاج و معالجہ کے لیے ماڈرن سہولتوں کے اسپتال قائم کیے۔ نیز کھیت سے مارکیٹ، تحصیلوں ضلعوں اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کے درمیان رابطہ کے لیے نئی نئی شاہراہوں کا جال بچھا کر اور پرانی سڑکوں کو نئے سرے سے تعمیر کرکے اعلیٰ درجے کی مثالیں قائم کرچکے ہیں۔ لاہور شہر، راولپنڈی/ اسلام آباد اور ملتان میں میٹر و بس سسٹم کا آغاز کرکے سفر کو آسان اور سستا بنا دیا گیا ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین سروس شروع کرکے اِسے دنیا کے جدیدما ڈرن اور خوب صورت شہروں کے ہم پلہ بنا دیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں صوبہ بھر میں لا تعداد روایتی تعلیم انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کے 200 کالج اور
19 یونیورسٹیاں قائم کرکے‘ تعمیر و ترقی کے منظور شدہ ٹھیکوں میں سے غریب عوام کے 682 ملین روپے بچت کرکے قومی خزانے کو ریلیف دیا چین کی حکومت تو اتنی خوش ہوئی ہے کہ انہوں نے ان کی تیز رفتاری سے مکمل ہوئے منصوبے دیکھ کر اسے پہلے ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ اور بعد میں ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کا نام دے دیا۔ نوازشریف کے بعد اب وہ ’’پاکستان مسلم لیگ‘‘ کے متفقہ طور پر صدر بن گئے ہیں‘ لیکن اتنے مقبول رہنماء نے اپنے انتخاب کے وقت مسلم لیگ (ن) کے اندر ہی سے اس عہدے کے لیے اٹھنے والے کارکن ملک شجاع کے کاغذات نامزدگی لینے سے گریز کیا شہباز شریف پنجاب اسپیڈ سے زیادہ رفتار سے بھاگے اور اس انتخاب میں ملک شجاع سے آنکھیں ملانے سے بھی گریز کیا اب جنرل الیکشن کا موسم آچکا ہے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں کی سول سوسائٹی کی معزز و محترم شخصیات، وکلا برادری، ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی، لوکل گورنمنٹ کے کونسلر اور چیئرمین، سیاسی کارکن، مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں سے وابستہ ارکان، بزنس مین کمیونٹی کے افراد پیغام بھیج رہے ہیں کہ وہ اُن کے شہر یا صوبے سے الیکشن لڑیں کراچی گینگ وار نے تباہ کردیا ہے گزشتہ 10 سال کی حکمرانی کے دور میں کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا ہے سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں، گٹر بھی اُبل رہے ہیں کراچی کے علاوہ سوات، ڈیرہ غازی خان اور لاہور سے بھی الیکشن میں اُتر رہے ہیں مسلم لیگ کو کامیاب کرائیں ضرور کرائیں مگر کراچی کو پیرس نہیں مدینہ بنائیں یہ کام مجلس عمل کی قیادت کے ذریعے ہی خوشگوار انقلاب کی صورت میں متوقع ہے۔