توہین عدالت کا خطرناک رجحان

226

گزشتہ ایک سال سے سیاسی رہنماؤں نے اعلیٰ عدلیہ کی توہین کو کھیل بنا رکھا تھا ۔ جو جس کے منہ میں آیا کہہ دیا ۔ اس بد زبانی کا آغاز جولائی2017ء سے اس وقت ہوا جب عدلیہ نے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ کے منصب سے بر طرف کر دیا ۔ ان کا غصہ کم ہونے ہی میں نہیں آ رہا اور عدلیہ کے ساتھ انہوں نے عسکری قوتوں پر بھی تیر چلانے شروع کر دیے ۔ ان سے وفا داری کے اظہار میں ان کے درباری بھی میدان میں کود پڑے ، اس توقع میں کہ مستقبل میں اس کا اچھا صلہ ملے گا ۔ عدالتوں کے فیصلوں سے عدم اتفاق ضرور کیا جا سکتا ہے اسی لیے ایک عدالت کے فیصلے پر اس سے اوپر کی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے اور سنگل یا دو رکنی بینچ کا فیصلہ ’’ فل کورٹ‘‘ میں چیلنج ہوتا ہے اور وکلاء صفائی بھی عدالت کے فیصلوں یا اس کی کارروائی کے خلاف دلائل دیتے ہیں لیکن یہ سارا عمل شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں ہوتا ہے ، ہونا چاہیے ۔ لیکن جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آیا وہ اس کے بر عکس تھا ۔ کسی ایک فرد کی حمایت میں کئی لوگوں نے تمام حدیں پار کر لیں ۔ نہال ہاشمی تو بالکل ہی آپے سے باہر ہو گئے تھے اور پھر شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ دانیال عزیز ، طلال چودھری اور کئی دیگرنے عدالتوں کی توہین کرنے کو معمول بنا لیا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بہت سوں کے منہ کھل گئے ، عام آدمی کے دل سے عدلیہ کا احترام اُٹھ گیا ۔ گزشتہ جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت پر سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کو پہلے تو تابرخاست عدالت قیدکی سزا سنائی اور پھر 5 سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ دانیال عزیز کو زیادہ سخت سزا کا خدشہ تھا کیونکہ عدالت کے احاطے میں بکتر بند گاڑی کھڑی تھی پولیس کی نفری بھی معمول سے زیادہ تھی ۔ موقع پر موجود صحافیوں کی رپورٹ ہے کہ خلاف توقع کم سزا پر دانیال عزیز نے اطمینان کا سانس لیا ۔ اب ان کی جگہ ان کے والد انور عزیز الیکشن لڑیں گے ۔دانیال عزیز بھی آمر جنرل پرویز مشرف کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ہیں ۔ پرویز مشرف کے کئی درباری ن لیگ میں شامل کر لیے گئے ہیں ۔ دانیال عزیز کو شعلہ بیان کہا جاتا رہا ہے لیکن ان کی شعلہ بیانی نواز شریف کے لیے وقف تھی ۔ دانیال کا کہنا ہے کہ مجھے نا کردہ گناہ کی سزا دی گئی ۔ ان کے خیال میں توہین عدالت ، انصاف کی فراہمی میں مداخلت اور عدلیہ کو بدنام کرنا کوئی ایسی بات نہیں جس پر سزا ملے ۔ تاہم 5 سال تو دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے اور اگلے انتخابات میں ممکن ہے کہ دانیال عزیز پھر میدان میں اتر جائیں ۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن کو عدالت کی طرف سے سزا ملنے پر ان کے حلقوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں ۔ ن لیگ کے ایک اور ’’بڑ بولے‘‘ طلال چودھری کا معاملہ بھی لائن میں ہے ۔ ان کی باری بعد میں آئے گی ۔ ممکن ہے کہ اب یہ سیاسی رہنما منہ کھولنے سے پہلے سوچنے کی زحمت بھی گوارا کریں ۔ لیکن سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کو اب تک اس کی توفیق نہیں ہوئی ۔ وہ تا عمر نا اہل قرار دیے جانے کے بعد اب بھی فیصلہ دینے والے جج پر گرج برس رہے ہیں ۔ اگر عدلیہ کو بھی داغدار کر دیا گیا تو عوام کس پر اعتماد کریں گے ۔ کیا ان رہنماؤں پر جنہوں نے قومی دولت لوٹ لوٹ کر اپنے گھر بھر لیے اور ارب پتی سے کھرب پتی ہو گئے؟