انتخابات کی’’ ہائی جیکنگ‘‘ کا عالمی مسئلہ

239

کچھ عرصہ پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے بیرونی طاقتوں کی طرف سے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے خدشے کا اظہار کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی کہ کون سی غیر ملکی طاقت کس مقصد کے تحت انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے؟۔ عمومی طور پر اس سے یہی مراد لیا گیا کہ غیر ملکی ایجنسیاں دہشت گردی کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہیں مگر دہشت گردی کے چند ایک واقعات سے انتخابی عمل کا رک جانا ممکن نہیں ہوتا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتی ہیں اور شاید الیکشن کمیشن کے اہل کار یہی بات کہنا چاہتے تھے جو اپنی سرکاری ذمے داریوں کے باعث وہ صراحت کے ساتھ کرنے سے قاصر تھے۔ یہ سیدھے سبھاؤ انتخابات کی ہائی جیکنگ کا عمل ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے ملک کی تین سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے خلاف غیر ملکی فنڈزکی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا کی سربراہی میں کمیشن کے تین رکنی بینچ نے اس کیس کو اسکروٹنی کمیٹی کو بھجوا دیا جو تینوں جماعتوں کو غیر ملکی فنڈنگ کی جامع تحقیقات کرے گا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز کی باریک بینی سے تحقیقات ایک اچھا قدم ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت سازی کرکے ملک کے وسائل کی نگران اور نگہبان ہی نہیں ہوتیں بلکہ ملک کے مستقبل اور اسٹرٹیجک امور کے حوالے سے بھی فیصلہ سازی کی پوزیشن میں آتی ہیں۔ اس لیے باہر کے ملکوں اور بڑی تجارتی کمپنیوں کا کسی بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ بالخصوص ایسے ممالک جو ہمسایہ یا ناراض ملکوں میں بھی اپنی سیاسی اسپیس ڈھونڈتے پھرتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو عطیات دے کر ایک آسان راستہ اور چور دروازہ تلاش کر لیتے ہیں۔ ان ملکوں کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی جماعت جب برسر اقتدار آتی ہے تولامحالہ وہ احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہے۔ عطیات اور فنڈز کی منتقلی کا آسان ذریعہ جہاں بیرونی ملکوں میں آباد شہری رہے ہیں وہیں غیر حکومتی تنظیمیں بھی ان مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ این جی اوز مختلف مدات میں پروجیکٹس کے نام پر سیاسی جماعتوں پر نوازشات کی بارش کرتی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں اس حوالے سے بہت ہی سخت قوانین نافذ ہیں۔ فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی پر لیبیا کے لیڈر معمر قذافی سے انتخابی مقاصد کے لیے فنڈز حاصل کرنے کا مقدمہ ابھی بھی زیر کار ہے۔ قوانین کی سختی کے باجود اکثر جمہوریتوں میں انتخابات میں بھاری اخراجات کا معاملہ ایک معما ہے۔ یہ راز ابھی تک پوری طرح کھلنے نہیں پایا کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اور اگر ان کا ذریعہ بیرونی ہے تو اس کے عوض وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ فنڈز دینے والے محض سخاوت اور فیاضی کے جذبات سے مغلوب ہوکر یہ کام نہیں کرتے بلکہ یہ ان کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ بھارت میں گم نام ڈونرز کا موضوع آج بھی گرما گرم موضوع ہے۔ مودی حکومت نے ایف سی آر اے رکھنے والی بیس ہزار این جی اوزکو پابندیوں کا شکار کیا ہے۔ ایف سی آر اے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل کرنا کا این او سی ہوتا ہے جو حکومت جا ری کر تی ہے۔ اس این او سی کی، منسوخی کے وقت بھارتی حکومت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ کئی این جی اوز بیرونی سرمائے کو بھارت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں امریکا، بھارت، اسرائیل، اور خلیجی ممالک اپنے اپنے مفادات تلاش کرنے کی خواہش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
پاکستان کی مضبوط اور طاقتور فوج، جغرافیائی محل وقوع، اٹھارہ کروڑ آبادی ایٹمی صلاحیت، معدنیات، انفرا اسٹرکچر اور ہائیڈرل کے شعبوں میں بڑے ٹھیکے اور دفاعی سودے، تجارتی پالیسیاں، بالخصوص پاک امریکا اور پاک بھارت تعلقات ایسے معاملات ہیں جن میں غیر ملکی طاقتوں کی از حد دلچسپی رہی ہے۔ ہر ملک اپنی پسند کے شعبے میں اپنے لیے رعایت کا متمنی ہوتا ہے۔ امریکا کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کا الزام اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات کی گہرائی میں تحقیقات ہونا لازمی امرہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاخیر سے سہی مگر ایک اہم قدم اُٹھایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی فنڈنگ کا معاملہ شفاف رکھنا چاہیے۔ غیرممالک میں آباد پاکستانیوں کے فنڈز اپنی جگہ مگر غیر ملکی حکومتوں اور این جی اوز کے فنڈز اور عطیات سے اپنا دامن ہر ممکن حد تک بچانا چاہیے۔ آج فنڈز دینے والے مہربان کل مطالبات کی فہرست لے کر ان کے دفاتر کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں اور چار وناچار احسانات کے بوجھ تلے دبے حکمران ان کی خواہشات اور مطالبات کا احترام کرتے ہیں۔