بدلتا وقت اور بدلتی اوقات

196

متحدہ قومی موومنٹ ، جو متحدہ نہیں رہی، اس پر اتنا برا وقت آگیا ہے کہ کراچی کے عوام اس سے بھی 25 برس کا حساب مانگ رہے ہیں۔ لیکن 25 برس کا حساب کیوں ؟ ایم کیو ایم نے تو اس سے بہت پہلے اپنا کھاتہ کھول لیا تھا اور خون خرابے کا آغاز الطاف حسین کی سرکردگی میں شروع ہوگیا تھا۔ ان کے یہ سارے بغل بچے ان کے دائیں بائیں اور ان کی برپا کی ہوئی خوں ریزی میں ان کے معاون تھے جو آج اپنے اپنے گروہ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور الطاف حسین سے نہ صرف برأت کا اعلان کرتے ہیں بلکہ اب جا کر انہیں اپنے قائد کے گناہوں اور خرابیوں کا ادراک ہوا ہے۔اب جسے دیکھو وہ اپنی جان بچانے کے لیے سارا الزام الطاف حسین پر ڈال رہاہے۔ الطاف حسین تو پہلے بھی بھارت کا ایجنٹ اور اس کے اشارے پر پاکستان کی جڑیں کھودنے میں لگا ہوا تھا۔ 2004ء میں دہلی میں اس کا خطاب بڑا واضح ثبوت ہے جب اس نے تقسیم ہند کو خونیں لکیر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں ہوتاتو ہرگز بھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتا۔ اس پر بھی یہ دعویٰ کہ ’’ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہیں ‘‘۔ کیا الطاف کی سوچ، اس کی فکر اور اس کے عزائم سے اس کے ساتھی باخبر نہیں تھے جو آج پاکستان سرزمین پارٹی ، بہادر آباد گروپ اور پی آئی بی کالونی گروپ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کیا مصطفی کمال الطاف حسین کے کارناموں میں شریک نہیں تھے۔ مصطفی کمال اچانک نمودار ہو کر الطاف کی شراب نوشی اور دماغی خلل کی داستانیں سنانے لگے لیکن اسی کی آشیر واد سے کراچی کے میئر بنے اور جن کارناموں کا دعویٰ کرتے ہیں وہ الطاف کی مدد سے کیے۔ جب شہر میں الطاف حسین کے لیے محسن انسانیت کے بینر اور یہ نعرے لگوائے گئے تھے کہ جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے اس وقت آج کے یہ رہنما فاروق ستار، خالد مقبول، خواجہ اظہار، مصطفی کمال وغیرہ کہاں تھے؟حتیٰ کہ تحریک انصاف کے نئے نویلے کھلاڑی عامر لیاقت بھی بھائی کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ حدیہ کہ جب 22اگست کو الطاف حسین نے کھل کر پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تب بھی صرف عامر لیاقت ہی تھے جنہوں نے ٹی وی پر آ کر الطاف کی وکالت کی اور بعد میں اس پر فخر کا اظہار بھی کیا ۔ لیکن عامر لیاقت تو پینترے بدلنے کے ماہر ہیں ۔ جس تھالی میں 12برس کھایا سب سے پہلے اسی میں چھید کرنے کی کوشش کی۔ خیر عامر لیاقت کی تو سیاست ہی یہی ہے جس کی وجہ سے انہیں انڈوں ٹماٹروں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ فاروق ستار پرانڈے تو نہیں برسے لیکن گزشتہ جمعہ کو انہیں اپنے حلقہ انتخاب میں میمن مسجد میں نماز جمعہ کے بعد لوگوں نے گھیر لیا اور 25برس کا حساب طلب کیا۔ مشتعل افراد نے کہاکہ 25برس سے کھالیں چھین رہے ہو اس کا حساب کون دے گا، اقتدار میں رہ کر ہمارا کون سا مسئلہ حل کیا ؟ بلدیہ فیکٹری میں بے گناہوں کو قتل کیا، ابھی توبہ کرلو ورنہ آگے جا کر پکڑ ہوگی۔ عاقبت میں پکڑ کا خوف ہوتا تو کراچی میں برسوں تک لاشیں گرانے اور آگ لگانے کا کھیل ہی نہ ہوتا۔ جب بوری بند لاشیں مل رہی تھیں، لوگ اغوا کیے جارہے تھے اور مخالفین کی ہڈیوں میں ڈرل کیے جارہے تھے تو آج کے یہ عوامی نمائندگی کے دعویدار اپنے بلوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اس موقع پر جو بھی بولتا وہ قائد کا غداربن کر موت کا حق دار ہوتا۔ایم کیو ایم کے کئی تاسیسی ارکان اس انجام سے دو چار ہوئے حتیٰ کہ پہلے چیئرمین عظیم طارق بھی۔ قانون میں اتنی سکت کہاں کہ کچھ ثابت کرسکے لیکن کراچی کے عوام خوب جانتے ہیں کہ مجرم کون ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگا کر ڈھائی سو افراد کو کس کے حکم پر زندہ جلایا گیا۔ مئی 2007ء میں کس نے کس کے حکم پر کراچی کی سڑکوں کو خون میں ڈبو دیا۔ دہشت گردوں کی وڈیوز بھی موجود ہیں ۔ عدالت 11سال بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کررہی ہے۔ 11سال مزید گزر جائیں گے۔ آج کے میئر کراچی وسیم اختر اس وقت مشیر داخلہ تھے اور پولیس ان کے تابع تھی جس سے اسلحہ رکھوالیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو کراچی میں داخل ہونے سے روکنے کا حکم کس نے دیا۔ آمر وقت پرویز مشرف نے کراچی میں اپنے حواریوں کو یہ کام سونپا جنہوں نے پوری جاں فشانی سے اس پر عمل کیا۔ پرویز مشرف تو ہاتھ آنے سے رہے، ان کا کھیل ویسے بھی ختم ہوچکا ہے لیکن کراچی میں خون ریزی کے بنیادی کردار تو سامنے ہیں ۔ انہیں پکڑ کر کسی تھانے دار کے حوالے کردیں، سب کچھ اگل دیں گے۔ فاروق ستار کے حلقے کے ووٹروں نے سوال کیا ہے کہ ہمارا کون سا مسئلہ حل کیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا ہر اس امیدوار کو ہے جو ماضی میں منتخب ہو چکا ہے اور عموماً کسی کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کے سوا کوئی معقول جواب نہیں البتہ ہرایک روداد فصل گل سنا رہا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور وہ کیا۔ فاروق ستار تو اس سوال پر برہم نہیں ہوئے لیکن سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔ وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ عوام میں کچھ کچھ شعور آتا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے عام ہونے سے اپنے حقوق کا ادراک بھی ہوتا جارہا ہے۔ اب تو کسی قبیلے کے سردار سے بھی اس کی رعیت میں سے کوئی اٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتا میرے حصے میں کیاپڑا اور وہ برہم ہو جاتا ہے۔ لیکن جب کراچی پر قابض جماعت ایم کیو ایم کے کسی رہنما سے حساب طلب کیا جاسکتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ شب ظلمت کی گرفت کم ہو رہی ہے اور نموو کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔