امریکی وزیر دفاع کے دعوے

222

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو ہم نے ہلاک کیا ہے۔جیمز میٹس نے اس واقعے کو پاکستان پر احسان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے بڑے دہشت گردوں کے خاتمے میں واشنگٹن کلیدی کردار ادا کررہا ہے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے جلد ہی وفد بھیجا جائے گا۔ ملافضل اللہ پر الزام تھا کہ وہ 2014ء میں پشاور اسکول کے سانحے کاذمے دار تھاجب کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ بھی اسی کے ایما پر کیا گیا۔ امریکی عوام سے لے کر امریکی حکام تک سب ہی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ناٹو افواج افغانستان میں کامیابی تو درکنار قدم بھی نہیں رکھ سکتی تھیں۔ فوج کی بکتر بند گاڑیوں سے لے کر ٹوائلٹ پیپر تک ہرچیز پہنچانے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کی جاتی تھی۔ اس موقع پر ہر کامیابی کا کریڈٹ واشنگٹن حکام نے خود لیا اور اب جب کہ افغانستان میں ان کی ہو ااکھڑ چکی ہے تواسلام آباد پر غداری کا الزام لگا کر ناکامی کا سارا ملبہ اسی پر ڈالا جارہا ہے۔ افغانستان کے 398اضلاع میں سے 277اب تک طالبان کے قبضے میں ہیں، جب کہ اب حالت یہ ہے کہ امریکا اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت جنگ بندی کے لیے طالبان کے آگے جھکنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں پاکستان پر امریکیوں کے الزامات کھسیانی بلی کھمبانوچے کے مترادف ہیں۔ وزیر دفاع نے اپنے بیان میں احسان جتاکر ثابت کردیا کہ مذاکرات کے لیے آنے والا وفد بھی ڈومور کی جارحانہ پالیسی پر کاربند ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میٹس نے اسامہ بن لادن کا ذکر نہیں کیا حالاں کہ افغانستان میں ناٹو کے حملے اور معصوم شہریوں کے قتل کا جواز صرف اسامہ ہی تھا۔ جیمز میٹس بڑے طمطراق سے کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اسلام آباد کے دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر ہلاک کیا۔ امریکا کی نظر میں ملافضل اللہ زیادہ اہمیت کا حامل تھا یا اسامہ بن لادن جس کے اسیکنڈل میں اب امریکا کے حق میں سوائے رسوائی کے کچھ بچا ہی نہیں ۔ پاکستانی حکام اگر آنے والے وفد سے ان سوالات کے جوابات طلب کرلیں تو ممکن ہے کہ بہت سے راز افشا ہوجائیں۔