میں نے 16 جون 18 کو ایک ٹوئٹ کیا تھا اس کو یہاں دہرا رہا ہوں ’’جس وقت بھی کرتا دھرتاؤں کو شک ہوا کہ انتخابی نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلیں گے انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں گے۔ لکھ لو‘‘۔ وقت اس ٹوئٹ کی صداقت کو قبول کر رہا ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ کہہ رہا ہے کہ: ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘۔ کرتا دھرتاؤں کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں ہو سکا ہے کہ جس کی کامیابی کے لیے وہ گزشتہ 5 برسوں سے تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں آیا اس کی کامیابی کے واضح امکانات بھی ہیں کہ نہیں۔
خبر ہے کہ ایک اور سابق وزیر اعظم، جناب شاہد خاقان عباسی کو بھی نااہل قرار دے کر الیکشن کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ابھی تک کرتا دھرتا اپنی کوششوں سے مطمئن نہیں ہو سکے ہیں اور انہیں اس بات کا خوف ہے کہ ان کی ساری جدوجہد بیکار جا رہی ہے اور ان کے ہر شدید قدم کا رد عمل کا اسی شدت کے ساتھ جواب آرہا ہے۔ چودھری نثار جو مسلم لیگ ن میں رہتے ہوئے کرتا دھرتاؤں کے دست و بازو بنے ہوئے تھے جب ان کو مسلم لیگ ن نے نظر انداز کرکے ان کے مقابلے پر ’’قمر الاسلام‘‘ کو ٹکٹ جاری کیا تو راتوں رات ان کو اٹھا کر یہ ثابت کیا کہ ہم اب تک اپنی کوششوں کی کامیابی سے مطمئن نہیں اور سہمے ہوئے ہیں کہ کہیں ناکامی ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ بن جائے۔ قمر الاسلام کی گرفتاری کے بعد کی صورت حال واضح کر رہی ہے کہا معاملات ’لات‘‘ کے بر خلاف ہی جارے ہیں جو ان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں اور وہ مسلسل یہ سجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ: ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور نہ جانے کیوں مجھے اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ آخر انجام کار کے طور پر یہ خبر بھی سنائی دے رہی ہوگی کہ: ’’آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا‘‘۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ’’انصاف‘‘ نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہوگا اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہت ساری باتیں پردہ راز ہی میں رہنے دی ہوں گی جو عدالت کے علم میں آگئی ہوں گی اور یہ جرم ان کی تاحیات نااہلی کا سبب بن گیا ہوگا۔ کوئی اگر میرے دل سے پوچھے تو مجھے مسلم لیگ ن سے کہیں سے کہیں تک بھی محبت نہیں بلکہ پاکستان میں جتنی بھی ’’اکائیاں‘‘ ہیں خواہ وہ مذہبی پارٹیوں یا گروہوں کی صورت میں ہوں، سیاسی پارٹیوں کی شکل میں ہوں یا لسانیت، علاقائیت یا صوبائیت کا چہرہ اوڑھے ہوئے ہوں، میرے نزدیک وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان سے محبت کی جائے یا کسی بھی قربت کے لائق سمجھا جائے اس لیے کہ یہ سب کے سب کراچی والوں سے شدید نفرت رکھتے آئے ہیں بلکہ انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دے کر 1958 سے تا حال قتل کرتے آئے ہیں۔ ایوب خان ہوں، بھٹو ہو، یا نواز شریف، کوئی بھی ایسا حکمران، جرنیل یا سربراہ سیاسی و مذہبی پارٹیاں، ایسا نہیں گزا جس نے ہر سطح پر قولاً یا عملاً اپنی شدید دوری کا اظہار نہ کیا ہو، تضحیک نہ کی ہو اور نا مناسب الفاظ کا استعمال نہ کیا ہو۔ کراچی کی سیاسی پارٹی تو ایک بہانہ بن گئی ورنہ 1947 تا 1988 تو کسی ایک نے بھی تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ در اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ البتہ پاکستان کی تمام مذکورہ کمیونٹیز خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں، خطہ کراچی سے بڑی انسیت کا اظہار کرتی رہی ہیں، اسی قسم کی انسیت ان کو مشرقی پاکستان کی ’’زمین‘‘ سے بھی بہت رہی تھی لیکن بندر کے ہاتھوں وہاں کی ’’ادرک‘‘ نہ آ سکی۔ اس لیے مجھے اب اس بات سے کوئی مطلب ہی نہیں کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ اب کیا ہورہا ہے۔ ماضی میں ضیا کے دور میں پی پی پی کے ساتھ کیا ہوتا رہا۔ اے این پی پر کیا گزری، طالبان کو کس نے پیدا کیا اور پھر رات دن بمباری کرکے ان کا کیا حشر بنا دیا گیا اور اب ان میں سے کچھ کو ایک مرتبہ پھر لارا لپا دے کر گلے لگایا جا رہا ہے اور اس کا مقصد بھی مزید گلے کٹوانے کے علاوہ اور کچھ نہیں وہ بھی ان کے گلے جن کے کاٹے جانے کا حکم دیا جائے۔
کیا ’’انصاف‘‘ اس بات کو سچ سمجھتا ہے کہ جن جن امید واروں نے اپنی جائداد اور اثاثوں کو جتنی قیمت کا ظاہر کیا ہے وہ اتنے ہی حقیر قیمت کے ہوں گے؟۔ جو شخص یہ کہتا ہوں کہ اس کا نہ تو ملک میں کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی ملک سے باہر تو عجب بات نہیں کہ وہ بادشاہوں سے بھی پر تعیش زندگی گزار رہا ہو اور کروڑوں روپوں میں عمرہ کر رہا ہو۔ جس کی آمدنی کا کوئی ذریعہ ہی نہ وہ لاکھوں روپے ماہانہ کے اخراجات کرتا ہو؟۔ یوسف گیلانی محض اس جرم میں نااہل کر دیا جائے کہ اس نے سوئس حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا اور جس کی انکوائری کے لیے خط لکھنے کا حکم عدالت نے جاری کیا اس پر آج تک کوئی آنچ نہیں آسکی۔ خط نہ لکھنے والا مجرم اور نااہل اور جس کے اکاؤنٹ کی تحقیقات مطلوب تھیں وہ صادق بھی اور امین بھی؟۔ تین چار ہزار امید واران میں کیا مسلم لیگ ن ہی کو میدان سے ہٹانا ہے؟۔ اسی لیے تو میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ جب تک کرتا دھر تاؤں کو یقین کامل نہیں ہو جائے گا کہ ان کی کوششوں کے وہی نتائج بر آمد ہونگے جس کے لیے وہ مسلسل کوشش کو رہے ہیں اس وقت تک اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ 2018 کے الیکشن کا انعقاد ہو سکے۔
یہ بات میں ہی نہیں سوچ رہا یا کہہ رہا بلکہ جسٹس وجیہہ الدین بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ ان کو ’’اصل پاکستانی‘‘ اس قابل بھی سمجھتے ہیں کہ وہ قابل احترام اور معزز جسٹس بھی تھے کہ نہیں اس لیے کہ وہ بد قسمتی سے اِس پاکستان کی جس پر یہ مغربی پٹی واقع ہے، اس کی مٹی سے دوسری جانب کے ہیں۔ پرویز مشرف کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ ہے ور نہ تو ان کا بھی احتساب نہیں کیا گیا جن کی غلط سوچ و فکر اور غلط طرز عمل کی وجہ سے قائد کا پاکستان دولخت ہوا۔ بہر حال وجیہہ الدین جو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج بھی رہ چکے ہیں وہ اپنے ٹوئٹ میں کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ ’’ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کی تعیناتی اور پھر نااہلی پر نااہلی اس سے بھی آگے نیب کی گرفتاریاں ان سب سے یہی لگتا ہے کہ یہاں الیکشن نہیں ہونے جا رہا بلکہ کسی ایک شخص کو اقتدار سونپا جا رہا ہے تاکہ بتایا جاسکے کہ اصل اقتدار کے مالک ایوان والے نہیں بلکہ کوئی اور ہیں‘‘۔ (27 جون 2018)۔
الیکشن کے زمانے میں بہت کچھ ہوتا آیا ہے لیکن اب جو منظر کشی ہو رہی ہے اس سے دنیا میں کوئی اچھا پیغام نہیں جارہا اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ بعد از الیکشن اس کے نتائج کوئی خوش کن ہوں گے۔ ایک الیکشن وہ بھی تھا جو بھٹو دور میں ہوا تھا پھر دنیا نے دیکھا کہ پورا پاکستان عذاب میں مبتلا ہو گیا تھا اور ہنگاموں کی شدت نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ ’’فیک‘‘ الیکشن تھا۔
ایک الیکشن یہ ہونے جا رہا ہے جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تاثر جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ اس میں ہر صورت ایک خاص پارٹی کو ہی اوپر لانا ہے خواہ پورے پاکستان کی عزت داؤ پر ہی کیوں نہ لگ جائے۔ اول تو کرتا دھرتا اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں، یہ بات از خود تذبذب اور بے یقینی کا شکار ہے اور اگر کسی نہ کسی طرح کوئی کامیابی حصے میں آبھی گئی تو کیا اس کو برقرار بھی رکھا جا سکے گا؟، اس پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔