کراچی سے بلاول یا شہباز شریف کی کامیابی کا امکان معدوم

238

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) عام انتخابات کے موقع پر کراچی میں عوام کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے احتساب اور جواب طلبی سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف سمیت کسی بھی پارٹی کے مرکزی رہنما کی کامیابی کا امکان معدوم ہے۔ اتوار کو پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں انتخابی مہم کے سلسلے میں بلاول بھٹو کی آمد پر پیپلز پارٹی سے ناراض ووٹرز کی طرف سے بلاول بھٹو کی ریلی کے راستے میں پتھراؤ سے پیپلز پارٹی کی قیادت پریشان ہوگئی۔ اس صورتحال پر بلاول اپنے رہنماؤں کے محاصرے میں ہونے کے باوجود گھبراہٹ کا شکار تھے۔انہوں نے چیل چوک کے قریب جمع ہونے والے درجنوں افراد سے یہ وعدہ کیا کہ اقتدار میں آکر وہ لیاری کے لیے پینے کے پانی کا خصوصی انتظام کریں گے۔ بلاول کے خطاب کے دوران قریبی گلیوں سے گو بلاول گو کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی آمد پر سخت ردعمل آنے پر لیاری سے تعلق رکھنے والے مقامی ٹی وی چینل کے رپورٹر شفیع بلوچ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت سے نالاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان حالات میں بلاول زرداری کا اپنی نشست نکالنا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔یادرہے کہ لیاری کے قریبی علاقے ایم اے جناح روڈ پر واقع میمن مسجد کے دروازے پر جمعہ کو انتخابی مہم کے سلسلے میں پہنچنے والے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار کا بھی نمازیوں نے گھیراؤ کرلیا تھا اور ان سے سخت سوالات کیے تھے، جس کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا تھا کہ اب انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو ہم درست طریقے سے عوام کی خدمت کریں گے۔ مقامی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ’’ اب لوگوں نے ہمیں منتخب کیا تو انسان بن کر لوگوں کے کام کریں گے اور ان کی امیدوں پر پورا اتریں گے‘‘۔ ووٹرز کا غم و غصہ دیکھ کر ہی ایس پی کے مرکزی رہنما خصوصاً مصطفی کمال ابھی تک عام لوگوں کے درمیان نہیں گئے ہیں تاہم ان کی پاک سر زمین پارٹی کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی انتخابی مہم جوش خروش سے جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک سر زمین پارٹی کے کارکن بھی انتخابی دفاتر تک محدود ہیں۔ انتخابی امیدواروں کے دوروں کے موقع پر ووٹرز کے منفی ردعمل پر اظہار خیال کرتے ہوئے نگراں صوبائی وزیر اطلاعات اور ممتاز تاجر جمیل یوسف نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’عوام کی برداشت کی حد ختم ہوجائے اور انہیں یقین ہوجائے کہ انہیں اب سچ بات کہنے کی آزادی ہے تو پھر اس طرح کے ردعمل سامنے آتے ہیں ، کراچی کے لوگوں نے اپنی پارٹیوں کے لیے بہت قربانیاں دیں مگر بدلے میں ایوانوں میں پہنچنے والوں نے انہیں پینے کا پانی تک نہیں دیا‘‘۔ جمیل یوسف نے کہا کہ حکومت میں اور اسمبلیوں میں رہ کر عوام کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اس لیے اب لوگ امیدواروں کو ویلکم کرنے کے بجائے ان کی آمد پر احتجاج کررہے ہیں۔ نگراں وزیر اطلاعات جمیل یوسف نے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے حوالے سے کہا کہ ’’میرا کہنا یہ ہے کہ ووٹ شخصیت کو دیکھ کر دیا جائے کیونکہ کام شخصیت کو کرنا ہوتا ہے ایسی شخصیت ہونی چاہیے جو بے داغ اور خدمت انسانی کا جذبہ رکھتی ہو ‘‘۔ یادرہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدوار نیک اور انسانوں کی خدمت کرنے والے ہیں اس لیے انہیں ووٹ دے کر انتخابات میں کامیاب کیا جائے۔ کراچی میں جاری مختلف جماعتوں کی الیکشن مہم کے تناظر میں یہ بات نوٹ کی جارہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی کامیابی کے حوالے سے توقعات کم ہیں جبکہ سرگرم سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس بار کراچی کے لوگوں کو شہر کے بہترین مستقبل کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرنا ہے جو ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کے لیے مصروف رہتے ہیں۔ جائزے کے مطابق شہر بھر میں صرف جماعت اسلامی کے کارکنان بلا خوف خطر و جھجھک عوام کے درمیان جاکر اپنا پیغام پہنچارہے ہیں۔