خلائی مخلوق اور جنات

325

میاں شہباز شریف المعروف خادم اعلیٰ پنجاب اپنی انتخابی مہم پر کراچی آئے تو بہت سے شوشے چھوڑ گئے ہیں اور یار لوگ ان پر طبع آزمائی کررہے ہیں۔ برادرم احمد حاطب صدیقی نے ’’پان اور کرانچی‘‘ والا مزید مضمون باندھا ہے اور ہمیں گلوری میں رکھ کر پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے بھی اپنے کالم میں خادم اعلیٰ کی کھنچائی کی ہے اور اسے عنوان دیا ہے ’’نمازیں بخشوانے گئے روزے گلے پڑ گئے‘‘۔ حامد میر کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے ’’اہل کراچی کی توہین نہ کریں‘‘۔ اصل میں خادم اعلیٰ لاہور میں خاص قسم کی پریس کانفرنسوں کے عادی ہیں جن میں صحافیوں کو بتایا جاتا ہے کہ انہیں کس قسم کے سوالات کرنے ہیں اور خادم اعلیٰ کی تعریف کا پل کس انداز میں باندھنا ہے لیکن کراچی میں وہ ’’وکھری ٹائپ‘‘ کے صحافیوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ انہوں نے جوابی وار کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی لیکن خود مذاق بن گئے اور اب لاہور میں اپنی چندیا سہلا رہے ہیں۔
خیر چھوڑیے اس قصے کو۔ خادم اعلیٰ نے کراچی میں کچھ سنجیدہ باتیں بھی کی ہیں۔ مثلاً کسی صحافی نے ان سے مبینہ خلائی مخلوق کے بارے میں پوچھا جس کا تذکرہ ان کے برادر بزرگ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ خادم اعلیٰ نے کہا کہ وہ کسی خلائی مخلوق کو نہیں جانتے، البتہ جنات کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے خلائی مخلوق کے وجود سے انکار کرکے اپنے بڑے بھائی کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے البتہ جنات کے وجود کا اقرار کرکے بالواسطہ طور پر یہ اشارہ دیا ہے کہ انتخابات میں جنات کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔ جنات کس کے پاس ہیں؟ یہ بڑا دلچسپ سوال ہے، اگر خادم اعلیٰ اور ان کے بھائی کے پاس جنات ہوتے تو وہ پاناما کیس کا فیصلہ ہی نہ آنے دیتے۔ اگر خدانخواستہ فیصلہ آجاتا تو وہ جنات کے ذریعے غیر موثر بناسکتے تھے۔ احتساب عدالت میں پیشی کی نوبت ہی نہ آتی اور لوگ حیران ہوتے کہ کیس تو شریفوں کے خلاف تھا لیکن ان کے حریف کپتان کو جرم بے گناہی میں پکڑ لیا گیا ہے اور بیچارا مفت میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ لیکن جنات نہ ہونے کے سبب یہ معرکہ سر نہ ہوسکا۔ بڑے میاں صاحب احتساب عدالت میں درجنوں پیشیاں بھگتنے کے بعد ان دنوں لندن میں فرد کش ہیں اور اپنی بیمار اہلیہ کی تیمارداری کررہے ہیں۔ انتخابات میں اب ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن انہوں نے پاکستان واپس آنے سے انکار کردیا ہے۔ بات ان کی معقول ہے وہ اپنی بیمار اہلیہ کو جو ابھی تک وینٹی لیٹر پر ہیں چھوڑ کر کیسے آسکتے ہیں۔ خیال تھا کہ
بڑے میاں صاحب نااہل ہونے کے باوجود (ن) لیگ کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے تو عوام ٹوٹ کر ان کے جلسوں میں آئیں گے اور ان کے نامزد کردہ امیدوار پولنگ سے پہلے ہی میدان مار لیں گے لیکن حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ بڑے میاں صاحب کے واپس نہ آنے سے (ن) لیگ کے امیدواروں پر مایوسی چھا گئی ہے اور سارا بوجھ چھوٹے میاں عرف خادم اعلیٰ پر آن پڑا ہے۔ وہ خیر سے وزارتِ عظمیٰ کے دعویدار بھی ہیں، ان کی یہ خواہش اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب (ن) لیگ اکثریت میں آئے اور ان پر اعتماد کا اظہار کرے، اگر مریم نواز قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو پانسا پلٹ بھی سکتا ہے۔ خادم اعلیٰ خلائی مخلوق کے بجائے جنات کے قائل ہیں اگر ان کے پاس جنات ہوتے تو وہ یہ معرکہ آسانی سے سر کرسکتے تھے لیکن افسوس جنات سے ان کی کوئی رسم و راہ نہیں ہے۔ وہ اب کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔
اگر انتخابات میں جنات کا عمل دخل ممکن ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ جنات کس کے پاس ہوسکتے ہیں۔ آپ نے یہ خبر تو پڑھی ہوگی کہ ایک خاتون صحافی عمران خان کا انٹرویو کرنے بنی گالا پہنچیں تو خان صاحب کی اپنے مہمانوں کے ساتھ مصروفیت کے سبب انہیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ وہ اس دوران خان صاحب کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے پاس
جا بیٹھیں اور ان سے مکان دکھانے کی فرمائش کردی۔ بشریٰ بی بی نے انہیں مکان کے مختلف حصے دکھائے پھر وہ انہیں گردو پیش کا نظارہ کرانے کے لیے چھت پر لے گئیں، چھت پر گوشت کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے، خاتون صحافی نے حیران ہو کر پوچھا ’’یہ کیا ہے‘‘ بشریٰ بی بی نے بتایا کہ یہ جنات کی خوراک ہے۔ خبر یہاں ختم ہوجاتی ہے لیکن آپ قیاس کے گھوڑے دوڑا سکتے ہیں کہ بنی گالا میں جنات کا بسیرا ہے، یہ جنات بشریٰ بی بی پاکپتن سے اپنے ہمراہ لائی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ جنات کی عامل ہیں اور ان کے پاس کئی موکل موجود ہیں۔ یہ کہانی بھی گردش کررہی ہے کہ بشریٰ بی بی کو ایک خواب کے ذریعے عمران خان سے شادی کرنے کی ہدایت ہوئی تھی تا کہ عمران خان وزیراعظم اور وہ خاتون اوّل بن سکیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنے خاوند سے طلاق لے کر عمران خان سے بیاہ رچا لیا۔ اب عمران خان ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں، بس 25 جولائی آنے کی دیر ہے وہ فتح کے پھریرے لہراتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوں گے۔ جہاں ’’نیا پاکستان‘‘ آگے بڑھ کر انہیں جپھی ڈال لے گا۔ ایسے میں خادم اعلیٰ کو اپنی خیر منانی چاہیے۔ وہ ’’کرانچی‘‘ کو کراچی اور کچرا گھر کو پیرس کیا بنائیں گے خود ان کا پیرس ان سے چھینتا نظر آرہا ہے۔ خلائی مخلوق کے وجود سے انکار کرکے انہوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی ہے ورنہ وہ جنات کے مقابلے میں خلائی مخلوق سے مدد لے سکتے تھے۔