لیکن جائیں کہاں؟

324

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ متنازع ہے تو لوگ رجوع کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ کہا جا رہا ہے سپریم کورٹ متنازع ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہاں آتے ہی کیوں ہیں۔ یقیناًیہ اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے اور عدالت عظمیٰ پر تنقید سے بڑھ کر اعتراضات کررہے ہیں اور مسلم لیگ ن کے رہنما تو براہ راست نام لے کر عدالت عظمیٰ اور چیف چسٹس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن چیف جسٹس نے مبہم انداز میں یہ جملہ کہا ہے اس اعتبار سے یہ عام ہو گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ متنازع ہے تو آتے کیوں ہو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی ہے کہ اسپتال عوام کے لیے بنایا گیا تھا کسی کی انتخابی مہم کے لیے نہیں۔ اس وضاحت سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ چیف جسٹس کے استپالوں کے دورے پر بھی کسی کو اعتراض ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو ملک میں کسی بھی ادارے کا دورہ کرنے اور وہاں کے حالات معلوم کرنے کا مکمل اختیار ہے اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے تو بالکل غلط کرتا ہے لیکن انتخابات کے دنوں میں انتخابی مہم کے سلسلے میں اسپتال جانے اور مریضوں سے ملاقات کرکے انہیں تحائف دینے کا حق بھی سیاستدانوں کو ہے۔ اس حوالے سے آئین نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہے لہٰذا اگر کوئی انتخابی مہم کے لیے بھی اسپتال چلا جائے تو اس میں قباحت نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر عدلیہ متنازع ہے تو آتے کیوں ہو کا کیا جواب دیا جائے۔ کیا عوام اور سائلین اسپتال جائیں؟ جانا تو وہیں پڑے گا خواہ کتنی ہی متنازع ہو۔۔۔ اس ملک کے اسپتال بے حد متنازع ہیں بعض اسپتالوں کی تو شہرت یہی ہے کہ مریض لے کر جاؤ میت لے کر واپس آؤ لیکن لوگ پھر بھی اسپتال جاتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ متنازع ہونے کے باوجود بیماری کی صورت میں اسپتال ہی جانا پڑتا ہے کوئی بیماری کی صورت میں شاپنگ سینٹر یا تھانے کا رخ نہیں کرتا۔ اس طرح اس ملک میں سب سے زیادہ متنازع پولیس اور تھانے ہیں لیکن کسی بد قسمت کے گھر میں چوری ہو جائے یا اسے کوئی لوٹ لے، کوئی بھی حادثہ ہو جائے کسی قسم کی سیکورٹی درکار ہو جانا تو تھانے ہی پڑتا ہے۔ اس متنازع ترین جگہ کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ یہ تھانے نہیں عقوبت خانے ہیں پھر بھی لوگ تھانے ہی جاتے ہیں۔ تھانوں کے بارے میں تو یہ تاثر ہے کہ خود نہ جاؤ تو وہ لے جاتے ہیں۔ کس کس کا ذکر کریں ہر سرکاری ادارے کا یہی حال ہے لہٰذا کسی کے متنازع ہونے سے جانے کا تعلق نہیں اور جن لوگوں کی طرف اشارہ ہے وہ تو بلائے گئے ہیں ورنہ خود کہاں آنے والے تھے اور اب بھی ملک سے باہر ہیں شاید ہی اب پیشی پر تیار ہوں۔۔۔ ہمارے قانون میں تو کہیں پابندی نہیں لیکن بعض چیزیں اور روایات اتنی پختہ ہو جاتی ہیں کہ دستور و قانون سے زیادہ موثر ہو جاتی ہیں یعنی یہ کہ چیف جسٹس تو اچانک کسی عدالت میں داخل ہو سکتا ہے جہاں سماعت ہو رہی ہو۔ وہ کسی اسپتال کا دورہ کر سکتا ہے کسی بھی ادارے میں جا کر افسران کو معطل یا برطرف کر سکتا ہے لیکن ہم نے نہیں سنا کہ کوئی شہری کسی سیشن کورٹ میں جا کر معائنہ کرنا شروع کردے کہ گزشتہ دس سال سے کون کون سے مقدمات زیر التوا یا مسلسل ہیں اور پھر وہ ان پر ایسے ہی تبصرہ کرے جیسے چیف جسٹس نے الرجی کی اقسام پر کیا۔ اسی طرح یہ بھی کسی نے نہیں سنا کہ کوئی شہری یا کوئی سویلین حکمران یہ موقف اختیار کرکے جی ایچ کیو پر قبضہ کر لے کہ ہمارے جرنیل نا اہلی کا مظاہرہ کر رہے تھے ان کے اقدامات سے ریاست کو خطرہ تھا۔ انہوں نے فلاں فلاں غلطیاں کی ہیں۔۔۔ پھر بعد میں کرپشن کے مقدمات بنا دیے جائیں۔ لیکن اس کا الٹ ضرور ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے الرجی سینٹرز بنانے کی مخالفت کی ہے کہ ہر تحصیل میں الرجی سینٹرز بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگوں کو مختلف چیزوں سے الرجی ہوتی ہے کسی کو بندوں سے ہوتی ہے کسی ڈاکٹر سے۔۔۔ پوچھیں تو کہتا ہے کہ جب تک الرجی کی تشخیص نہیں ہو گی اس وقت تک علاج نہیں ہو سکتا،اب الرجی کا شکار لوگ کہاں جائیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ نہیں کر رہا ہے۔ ہاں عدالت عظمیٰ متنازع ہے اس کے بارے میں بہت سے اعتراضات باقاعدہ موجود ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ مقدمات کے لیے عدالت ہی جائیں گے۔۔۔ بات یہ ہے کہ عدالت متنازع کیوں ہے۔ آج کل جو تاثر عام ہے وہ یہ ہے کہ عدالت اور خلائی مخلوق کا مسئلہ صرف ایک شخص یا خاندان ہے اس کی خاطر پورے ملک کا نظام الٹ پلٹ دیا گیا ہے۔ پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کر دی گئی ہے۔ قوانین کی الٹ پھیر کی گئی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ملک کا مستقبل مزید مخدوش ہو جائے گا۔ صرف اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سابقہ حکومت، نگراں حکومت، الیکشن کمیشن، عدالت عظمی اور فوج کی جانب سے ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں گے۔ لیکن انتخابی امیدواروں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں تو پتا چلے گا کہ جن لوگوں کا احتساب ہونا تھا وہ ایک بار پھر لیڈر بن کر سامنے آگئے ہیں کئی کئی برس حکمرانی کرنے والے کہہ رہے ہین کہ حکومت ملی تو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ سب کا دعویٰ ہے کہ شفاف انتخابات کرائیں گے تو کیا شفاف انتخابات اس طرح ہوتے ہیں۔ ویسے الیکشن کمیشن اور انتخابی نظام بھی متنازع ہے لیکن اس حوالے سے پوری قوم یکسو ہے کہ متنازع ہونے کے باوجود اسی سے رجوع کریں گے۔