کیا عجب اندازِ نگرانی ہے؟

309

ماضی قریب کے حکمران اس حقیقت سے غافل نہیں تھے کہ انہوں نے ملک کی جاں بہ لب معیشت کو آکسیجن ماسک پر چلایا ہے۔ ہیر پھیر کی بیساکھی پر کھڑا رکھا اور جونہی یہ ہٹ جائے گی معیشت کا مریض ایک بار پھر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی حالت زار سنائے گا۔ اس حقیقت کا عکاس شہباز شریف کا یہ جملہ تھا کہ ملک کو بجلی فراہم کرنا تیس مئی تک ہماری ذمے داری ہے اس کے بعد ہم سے گلہ نہیں ہونا چاہیے۔ گویا کہ ہماری حکومتیں امریکن سسٹم کے تحت کام کرتی ہیں اپنے دور اقتدار میں بجلی بحال اور مہنگائی ایک حد تک قابو رکھتی ہیں اور اس کے بعد ملک کو حالات کے حوالے کرکے رخصت ہوجاتی ہیں۔ جنرل مشرف کی ق لیگ کی حکومت کے بعد سے یہ رجحان اور رواج عام ہو کر رہ گیا۔ ملکی معیشت کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے دن گزارنے کی اس پالیسی نے پاکستان کی معیشت کو لاغر اور بیمار کردیا ہے۔ اب کوئی دستِ مسیحا ہی زبوں حالی کی ان پستیوں سے ملکی معیشت کو دوبارہ بہتری کی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ یہ روایتی طور طریقوں کا معاملہ نہیں رہا ایک بھرپور آپریشن کا متقاضی ہے۔ ملک کی بڑی جماعتیں ابھی اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہیں کر سکیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ تو ایڈہاک ازم کے طور پر ملکی معیشت کو چلانے کی ذمے دار رہی ہیں ان سے اب توقع ہی عبث ہے مگر تحریک انصاف بھی ملکی معیشت کو سہار ا دینے کے حوالے سے مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔
نگران حکومت حقیقت میں مہمان حکومت ہوتی ہے اور اس کا کام تین ماہ میں انتخابات کرانا اور حکومتی خلا کو پر کرنا ہوتا ہے۔ سسٹم کے پہیے کو رواں اور اس میں تسلسل قائم رکھنا ہوتا ہے مگر یہاں تو نگران حکومت بھی ماضی کی طرح تازیانے برسانے میں لگ جاتی ہے جس کا ایک ثبوت نگران حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے حالات کے جبر تلے کراہتے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرانا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول فی لیٹر 99.50 روپے، ڈیزل 119.31 جب کہ مٹی کا تیل کی قیمت 87.7 ہوگیا ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے عید سے پہلے بھی پٹرول کی قیمت میں چار روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس طرح بہت تھوڑی سی مدت میں نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کو ملک کی معاشی حالات کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے مہنگا ہونے کا مطلب اس ایک شے کی مہنگائی نہیں بلکہ اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے اور ایک عام آدمی کی معیشت اور گھریلو بجٹ بھی متاثر ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ جس سے اشیائے خور ونوش کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے ایک اور منی بجٹ ہی ثابت ہوتا ہے۔ معاشی ماہرین جولائی کے مہینے کو ملک کی معیشت کے حوالے سے حد درجہ اہم قرار دے چکے ہیں۔ اسی ایک ماہ میں یہ فیصلہ ہونا ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے قرض کی نئی قسط کے لیے کشکول دراز کرنا ہے یا نہیں؟ اور کشکول پھیلانے کی صورت میں آئی ایم ایف کی شرائط کیا ہوں گی؟۔ اس وقت آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی ادارے امریکا کے زیر اثر ہیں اور امریکا پاکستان سے ناخوش ہے جس کا حالیہ ثبوت ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ملک قراردیتے ہوئے اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنا ہے۔ یہ ساری لسٹیں اس وقت صرف پاکستان کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، حقوق انسانی کا عالمی کمیشن، عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کے زیر اثر دوسرے اداروں کا پاکستان سے موڈ بگڑا ہوا ہے۔ پانی کا تنازع ہو یا کلبھوشن کا معاملہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں یا دہشت گردی سے متعلق دوسرے معاملات عالمی طاقتوں اور ادروں کا پلڑا پاکستان کی مخالف میں جھکا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کسی ملک کو معتوب بنانا ہو تو پھر اس کے خلاف الزامات کی اس قدر گرد اُڑائی جاتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ عراق کی کیمیائی ہتھیاروں کی افسانہ طرازی کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ اس کے بعد بھی بہت سے ملکوں کا گھیراؤ پروپیگنڈے کے زور پر یوں کیا جاتا ہے کہ اس ملک کا سچ نقارخانے میں توتی کی آواز بن کر رہ جاتا ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے مگر اس کا حل قیمتوں میں اضافہ ہی نہیں۔ نگران حکومت باقی کاموں میں اپنی نگرانی اور محدود مینڈیٹ کا عذر تراشتی ہے مگر مہنگائی کا بم گرانے کے لیے خدا جانے مینڈیٹ لامحدود کیوں ہو تا جا رہا ہے۔ ملک کی معاشی حالت کو موجودہ انجام سے دوچار کرنے والے حکمران طبقات اور اشرافیہ کے کالے کرتوتوں کی قیمت عام آدمی سے وصول کرنا نا انصافی ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ملک کی دولت لوٹ کر امریکا، برطانیہ، سویٹزر لینڈ، ہانگ کانگ، سنگا پور، دبئی، جنوبی افریقا میں دولت کے پہاڑ کھڑے کیے ہیں اور قرض معاف کرکے ڈکار تک نہیں لی ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ساری قیمت انہی سے وصول کی جانی چاہیے۔