عہدِ رسالت ؐ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور قرونِ اُولیٰ میں ووٹ یا اس کے ہم معنی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہوئی، یہ جدید جمہوری دور کی اصطلاح ہے، آکسفورڈ ڈکشنری میں ووٹ کے معنی یہ ہیں: ’’کسی منصب کے لیے ایک سے زیادہ امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا، خواہ بیلٹ کے ذریعے یا ہاتھ اٹھا کر ہو‘‘۔ عہدِ رسالت ؐ، عہدِ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ہمیں ’’بیعت‘‘ کی اصطلاح ملتی ہے، جو قرآن وحدیث میں بھی مذکور ہے۔ عہدِ رسالت میں مختلف مواقع پر بیعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہمیں ملتی ہیں: (1)قبولِ اسلام کے لیے ’’بیعت علی الاسلام‘‘، (۲) ہجرت کے موقع پر ’’بیعت علی الہجرۃ‘‘، (۳) جہاد کے موقع پر ’’بیعت علی الجہاد‘‘، سلمہ بن اکوع سے نبی ؐ نے دو مرتبہ جہاد پر بیعت لی، ’’یزید بن ابی عبید کہتے ہیں: میں نے سلمہ سے کہا: آپ کس چیز پر بیعت کرتے تھے، انہوں نے کہا: موت پر، (بخاری)‘‘۔ (۴) ایک بیعت مُنکَرات کے ترک کرنے اور مامورات پر عمل کرنے کے بارے میں تھی، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اے نبی! جب آپ کے پاس مومنات اس پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرائیں گی، وہ نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کوئی بہتان تراشی کریں گی اور نہ ہی کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی، تو اُن سے بیعت لے لیں، (الممتحنہ: 12)‘‘۔
اسے ’’بیعتِ مومنات‘‘ بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ مومنات کے ساتھ خاص نہیں ہے، عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں: ہم نے بیعتِ عقبۂ اُولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ؐ سے عورتوں والی بیعت کی، کیوں کہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا۔ رسول اللہ ؐ کے بعد بیعتِ امارت یا بیعتِ خلافت تھی، جو کئی صدیوں تک رائج رہی۔
خلفائے راشدین بیعتِ عام مسجد نبوی میں لیتے تھے، اُس کی حیثیت آج کے Vote of Confidence کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کی بیعت غیر مشروط تھی، انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوتے ہیں اور اُن کے علم کا منبع وحیِ ربّانی ہوتا ہے، لہٰذا اُن کے فرامین کو رد کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ حاکمِ وقت کی اطاعت قرآن وسنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس اگر تمہارا ان سے کسی چیز میں اختلاف ہوجائے، تو اُس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، (النسآء: 59)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی منشا قرآن سے اور رسول اللہ ؐ کی منشا حدیث سے معلوم ہوگی، یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ؐ کی منشا ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے (درحقیقت ) اللہ (ہی) کی اطاعت کی، (النسآء: 80)‘‘۔ ہمارے موجودہ دستوری نظام میں بھی اگرکوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف ہو، تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جس کا موقف آئین وقانون کے مطابق ہوگا، عدالت اُس کی توثیق کرے گی، لیکن ہمارے ہاں ایسے معاملات کو معرضِ التوا میں ڈال دیا جاتا ہے یا وہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں، جنہیں قرآن وسنت اور فقہِ اسلامی میں مہارت نہیں ہے۔
اس سے قطع نظر کہ مطلق جمہوریت کی شرعی حیثیت کیا ہے، جدید دور میں مختلف سطح کے قانون ساز اداروں کے ارکان، وزرائے اعظم اور صدور کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بعض مناصب کے انتخابات بالواسطہ اور بعض کے بلاواسطہ ہوتے ہیں اور ووٹر کے لیے کم از کم عمر کی شرط ہوتی ہے، تعلیم یا صداقت و دیانت کی کوئی شرط نہیں ہوتی، عام انتخابات میں ہر ادنیٰ واعلیٰ، عالم وجاہل، امین اور خائن، یہاں تک کہ منصف اور قاتل کی رائے کا وزن برابر ہوتا ہے۔
موجودہ دور کے علماء میں سے علامہ مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں ووٹ کی شرعی حیثیت پر بحث کی ہے اور انہوں نے ووٹ کو شہادت کا درجہ دیا ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں (۱): ’’خصوصاً اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے، جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت وامانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں (۲): ’’اسی طرح امتحانات میں طلبہ کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے، اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی، تو یہ جھوٹی شہادت ہے، جو حرام اور سخت گناہ ہے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں: (۳) ’’قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے، جس کو سفارش کہا جاتا ہے: گویا ووٹ دینے والا یہ سفارش کرتا ہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو شخص اچھی سفارش کرے گا، تو (نیک کاموں میں) اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو بری سفارش کرے گا، تو (برے کاموں میں) اُس کا برابر کا حصہ ہوگا، (النسآء: 85)‘‘۔
وہ لکھتے ہیں: (۵) ’’ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا کسی امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لیے وکیل بناتا ہے، اگر یہ وکالت قومی امور کی انجام دہی کے لیے ہے، تو کسی نا اہل کو وکیل بنانا پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ خلاصہ یہ کہ ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں: ایک شہادت، دوسری سفارش، تیسری مشترکہ حقوق میں وکالت، پس نا اہل اور بے دین کو ووٹ دینا بیک وقت جھوٹی شہادت، بری سفارش اور ناجائز وکالت ہے، اس کے تباہ کن نتائج کا ذمے دار ووٹ دینے والا بھی ہوگا، (معارف القرآن، ج: 3، ص: 70-71، بتصرف)‘‘۔
ہماری رائے میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ووٹ کی یہ حیثیتیں محلِ نظر ہیں: جس قضا یا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے، اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے، جب کہ جائز ووٹ کو الیکشن کا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر رد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کسی کے حق میں سفارش کی جائے، تو جس کے پاس سفارش کی جارہی ہے، شریعت کی رُو سے اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے، جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے، لیکن پولنگ اسٹیشن کا پریزائڈنگ افسر یا عملہ یا ریٹرننگ افسر ازروئے قانون کسی جائز ووٹ کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح موکِّل اپنے وکیل کو معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جب کہ ووٹ دیتے ہی مؤثر ہوجاتا ہے، اس کے بعد ووٹر نہ اپنے امیدوار کو معزول کرسکتا ہے اور نہ اپنے ووٹ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ منتخب امیدوار کی نا اہلی کو جانچنے اور نا اہلی کی بنیاد پر معزول کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹرائبونل یا اعلیٰ عدالتوں کے پاس ہوتا ہے، ووٹر زکے پاس نہیں ہوتا۔
پس ہماری رائے میں ووٹ قضا ہے، جس طرح ہمارے نظامِ عدالت میں ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ کرتا ہے، مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلہ کبھی ایک جج کرتا ہے، اسے Single Bench کہتے ہیں، کبھی دو یا تین جج کرتے ہیں، اسے Small Bench کہتے ہیں، کبھی اس سے زیادہ جج کرتے ہیں، اسے Larger Bench کہتے ہیں اور کبھی عدالت کے تمام جج صاحبان کسی اہم پٹیشن کی سماعت کریں، تو اسے Full Court کہتے ہیں۔ دو ججوں کی رائے مختلف ہوجائے تو ریفری جج مقرر کیا جاتا ہے، دو سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کی صورت میں اگر ان کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکے تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک حلقۂ انتخاب میں کل ووٹروں کی مثال ایک جیوری یا عدالت کی ہے، اگر ووٹ ازروئے قانون درست ہے، تو اُسے کوئی رد نہیں کرسکتا، اگر کرے گا تو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ملکی قانون میں انتخاب کے موقع پر جو ووٹر انتخاب میں حصہ نہیں لیتے، وہ اپنے حقِ قضا سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو حصہ لیتے ہیں، اُن کی رائے قضا میں شامل ہوتی ہے اور فل کورٹ کی طرح اکثریت کا فیصلہ جس امیدوار کے حق میں آئے، وہ منتخب ہوجاتا ہے۔
باقی صفحہ نمبر 11 کالم 1
مفتی منیب الرحمن
امیدوار کو کسی بھی درجے یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا سلیکشن بورڈ زکی حیثیت بھی قضا کی ہے۔ البتہ مفتی صاحب کی اس رائے سے ہمیں کامل اتفاق ہے: ’’پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینا اس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے، سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، حرام ہے اور گناہ ہے، جیسا کہ 2002 کے انتخابات میں اس کی متعدد مثالیں سامنے آئیں‘‘۔ پس طالب علم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے۔ اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے، تو اس کے بارے میں شدید وعید آئی ہے:
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اگر صاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے) کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے، کسی (جاہل اور خائن) کو عامل بنایا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی، (السنن الکبریٰ للبیہقی)‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا، اُس کو بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا، (سنن ترمذی)‘‘، چھری کے بغیر ذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا (۱): قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتا ہے، تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے، وہ بھی جہنم میں ہوگا، (ابوداؤد)‘‘۔ پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں، تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علم بردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگا کر گلاب کے پھول یا انگور کے خوشوں کی تمنا کرنے کے مترادف ہے۔
امیدوار کو کسی بھی درجے یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا سلیکشن بورڈ زکی حیثیت بھی قضا کی ہے۔ البتہ مفتی صاحب کی اس رائے سے ہمیں کامل اتفاق ہے: ’’پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینا اس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے، سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، حرام ہے اور گناہ ہے، جیسا کہ 2002 کے انتخابات میں اس کی متعدد مثالیں سامنے آئیں‘‘۔ پس طالب علم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے۔ اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے، تو اس کے بارے میں شدید وعید آئی ہے:
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اگر صاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے) کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے، کسی (جاہل اور خائن) کو عامل بنایا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی، (السنن الکبریٰ للبیہقی)‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا، اُس کو بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا، (سنن ترمذی)‘‘، چھری کے بغیر ذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا (۱): قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتا ہے، تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے، وہ بھی جہنم میں ہوگا، (ابوداؤد)‘‘۔ پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں، تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علم بردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگا کر گلاب کے پھول یا انگور کے خوشوں کی تمنا کرنے کے مترادف ہے۔