ضیا‘ بھٹو اور زرداری‘ ایک کہانی کے مختلف رنگ

434

پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو قتل کے ایک مقدمے میں پانچ جولائی 1977ء کو راولپنڈی کی جیل میں پھانسی پاگئے، آج انتالیس سال بیت گئے ہیں لیکن بھٹو کا نام آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ ان کے سیاسی کردار اور طرز حکومت پر آج بھی بحث کی جاتی ہے، پارٹی کے کارکن سمجھتے ہیں کہ بھٹو کی پارٹی آصف علی زرداری نے تباہ کردی ہے‘ یہ کارکنوں کی سوچ ہے۔ پارٹی کی لیڈر شپ کی بہت بڑی تعداد آج بھی آصف علی زرداری کی قیادت میں پارٹی میں موجود ہے، بھٹو کی موت کے اٹھائیس سال کے بعد ان کی صاحب زادی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی راولپنڈی میں اسی باغ میں خود کش حملے میں شہید ہوگئیں جس میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا اتفاق سے جس ڈاکٹر نے لیاقت علی خان کو طبی امداد دی انہی کے بیٹے ڈاکٹر مصدق نے بے نظیر بھٹو کو ابتدائی طبی امداد دی لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکیں۔
بھٹو جب زندہ تھے اور حکومت میں تھے تب آصف علی زرداری کے والد محترم حاکم علی زرداری بھی ان کی جماعت میں تھے مگر بعد میں اختلافات ہوئے تو یہ نیپ میں چلے گئے۔ بھٹو سے اختلافات بڑھتے گئے حتی کہ بھٹو حکومت ختم ہوگئی اور حیدر آباد ٹربیونل بھی توڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں نیپ کے گرفتار رہنماء رہا ہوئے یوں ایک لحاظ سے ضیاء الحق حاکم علی زرداری‘ آصف علی زرداری کے محسن بنے‘ اگر یہی بات آگے بڑھائی جائے تو ضیاء الحق حاکم علی زرداری کے پوتے بلاول زرداری کے بھی کسی حد تک محسن سمجھے جاسکتے ہیں لیکن بلاول تو ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ یہ ایک معما ہے جسے حل ہو کر ہی رہنا ہے کہ بلاول اگر ددھیال کی جانب دیکھیں تو ضیاء الحق کا احسان نہیں فراموش کر سکتے اگر ننھیال کی جانب سے دیکھیں تو ضیاء الحق کو بھٹو کی پھانسی کا ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس مخمصے سے باہر نکلنا ہوگا تب کہیں جاکر اس کی دوبارہ سیاسی زندگی کی علامت ظاہر ہونا شروع ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا بیان ریکارڈ پر ہے ان پر فیصلہ دینے کے لیے دباؤ تھا‘ جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی آج کل عدالت عظمیٰ میں سینئر جج ہیں عدالتیں کتنا دباؤ لیتی ہیں‘ ہمیں معلوم نہیں ہے‘ ہمارا تو یہ تسلیم کرنا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف فراہم کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں حکومت نے بھٹو کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا لیکن یہ مقدمہ حکومت کے وزیر قانون کی چالاکیوں اور غیر سنجیدہ رویے اور کھوکھلے پن کی نذر ہوگیا ۔ آصف علی زرداری سے بھی وہی غلطی ہوئی جو بھٹو سے ضیاء کے انتخاب کے وقت ہوئی‘ وہ اس سوال کا جواب اگر آج زندہ بھی ہوتے تو نہیں دے سکتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق صاحب کو فوج کا سربراہ کیسے چن لیا تھا۔ تاریخی حوالہ یہ ہے کہ جنرل ٹکا خان کی سفارش پر انہیں آرمی کا سربراہ بنایا گیا تھا‘ اب جسمانی طور پر ضیا الحق زندہ ہیں نہ ٹکا خان اور نہ بھٹو‘ مگر سوالات ہیں کہ زندہ ہیں‘ ٹکا خان نے سفارش کی کہ ان کے بعد جنرل ضیاء الحق کو ان کا جانشین بنایا جائے۔ جنرل ٹکا خان کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ایک مذہبی قسم کا شخص ہے اور فوج کا سربراہ ہونے کے بعدوہ خود میں مشغول رہے گا اور حکومت کے لیے سیاسی معاملات میں کوئی ہلچل پیدا نہ کرے گا۔
کرنل رفیع الدین کی کتاب میں یہ حوالے بھی موجود ہیں بھٹو کی پھانسی کے کافی عرصہ کے بعد ٹکا خان نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔ کرنل رفیع لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے اسی ملاقات کے دوران مجھے یہ بھی بتایا کہ جنرل عبدالمجید ملک بھی چیف آ ف آرمی اسٹاف کے عہدے کے لیے ایک موزوں شخص تھے، جنرل عبدالمجید ایک روشن دماغ‘ عقل مند اور قابل جنرل تھے لیکن وہ بدقسمتی سے اس عہدے کو نہ پا سکے۔ حالاں کہ بھٹو نے کافی چاہا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا‘ جنرل مجید ملک کے بارے میں قبلہ سعود ساحر کی گواہی ہے کہ ضیاء الحق آرمی چیف بنے تو جنرل مجید ملک نے وردی اتار دی تھی اور سوپر سیڈ ہونے پر دفتر سے سیدھے گھر چلے گئے۔ جنرل عبدالمجید ملک ایس ایس جی (Special Service Group) میں رہے‘ جہاں ان کی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھی وہ شریک رہے بعد میں1971ء کی جنگ میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے‘ ان کی بہو عائشہ رئیسانی ملک آج کل پمز اسپتال میں ترجمان ہیں۔ جنرل مجید ملک ایک شائستہ اور سمجھدار جنرل تھے وہ فوج کے ایک اچھے سربراہ ثابت ہوتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
بھٹو کو جیل میں قید کے دوران ایک دن بھی یقین نہیں آیا کہ انہیں پھانسی دے دی جائے گی ان کے وکلا‘ فیملی ممبرز اور جیل میں ملنے والے تقریباً تمام لوگوں نے ان سے اس مقدمے کے متعلق ہمیشہ یہی کہا کہ یہ صرف سیاسی کھیل تماشا ہے انہیں بیرونی ممالک کے سربراہوں اور کئی دوسری شخصیات کے جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت پر اثررسوخ کا علم بھی تھا بھٹو صاحب کے کچھ بیرونی دوستوں نے جنرل ضیاء ا لحق سے ان کی معافی کا وعدہ تک بھی لے لیا تھا جو بھٹو کے علم میں بھی لایا گیا تھا مقدمہ کی اپیل کے آخری چند ماہ کے دوران حکومت بھٹو صاحب کو پھانسی دینے پر تل گئی تھی بھٹو کو مشورہ دیا گیا کہ سر جھکا لیں مگر انہوں نے سر نہیں جھکایا ان کے اس بہادرانہ فعل نے انہیں زندہ رکھا ہوا ہے جب تین اپریل1979ء کی شام بھٹو صاحب کو سرکاری طور پر یہ بتایا جا رہا تھا کہ ان کو آخری فیصلہ کے مطابق اب پھانسی دی جا رہی ہے تو بھٹو موت کے اس پیغام پر مسکرا رہے تھے اور پیغام دینے والے ایک زبردست اضطراب کی حالت میں تھے بھٹو آخر تک سمجھتے رہے کہ وہ اس کیس کے متعلق ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہیں ہر بار یہی جواب دیا کہ چوں کہ یہ بناوٹی کیس ہے اس لیے وہ کیوں فکر مند ہوں؟
بھٹو بہت بڑے سیاست دان‘ مدّبر اور معاملہ فہم تھے اور انہیں اپنی اس خداداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر یہ نہ ہوسکا کئی بار صدقِ دل سے ان سے عرض کیا گیا کہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے وہ قائل نہ ہوئے یہی جواب دیا کہ اس مقدمے میں وہ بے قصور ہیں اور وہ کیوں اپنی عزت نفس کا سودا کریں۔ آج کی اس کہانی میں نواز شریف کے لیے بھی ایک پیغام ہے‘ اگر وہ سمجھیں کہ مقدمہ مقدمہ ہی ہوتا ہے اورا سے سنجیدہ ہی لینا چاہیے اپنے حق میں اگر صفائی کے گواہ ہیں تو انہیں پیش کریں اور مقدمے سے جان چھڑائیں ایک نہایت سینئر ماہر قانون جناب قوسین فیصل مفتی کی رائے ہے کہ نواز شریف کو ہر صورت اور ہر قیمت پر اپنے حق میں صفائی کے گواہ پیش کرنے ہیں دوسری صورت میں عدالت تو اپنا فیصلہ دے گی۔